سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی ریلی کے دوران قاتلانہ حملے میں زخمی، حملہ آور سمیت دو افراد ہلاک، دو زخمی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ کے سابق صدر اور رپبلکن پارٹی کے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ ایک انتخابی ریلی کے دوران فائرنگ میں زخمی ہوئے جس کے بعد انھیں ہسپتال لے جایا گیا مگر اب وہ نیو جرسی میں واقع اپنے گھر پہنچ چکے ہیں۔

سنیچر کو پینسلوینیا میں ہونے والی ریلی کے دوران سیکریٹ سروس کے ایجنٹس سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت سٹیج سے اپنے ساتھ حفاظتی حصار میں لے گئے جب وہاں گولیوں کی آواز سنائی دی۔

ٹرمپ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ’ٹھیک‘ ہیں۔ ایک مقامی میڈیکل سینٹر میں طبی امداد کے بعد انھیں ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔

اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر ایک پوسٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے لکھا کہ گولی ان کے کان کے ’اوپری حصے‘ کو چھو کر گزر گئی۔ انھوں نے سیکرٹ سروس کا شکریہ ادا کیا ہے۔

سابق امریکی صدر کا کہنا ہے کہ ’مجھے فوراً ہی پتا چل گیا تھا کہ کچھ غلط ہوا ہے۔ میں نے سیٹی کی سی آواز سنی۔ گولیاں چلیں اور مجھے فوراً ہی محسوس ہوا کہ ایک گولی میری جِلد کو چیرتی ہوئی نکل گئی ہے۔‘

’کافی خون بہہ گیا تو مجھے پتا چلا کہ یہاں ہوا کیا ہے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ کے کان پر خون واضح طور دیکھا جا سکتا تھا جب انھیں سیکرٹ سروس کے ایجنٹ اپنے ہمراہ لے کر جا رہے تھے۔

ریلی میں بنائی جانے والی ایک فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گولیوں کی آواز آنے کے بعد سابق امریکی صدر نے اپنے دائیں کان کو ہاتھ لگایا اور انتہائی پھرتی سے نیچے بیٹھ گئے۔

سیکرٹ سروس کے ایجنٹس انھیں فوراً ہی سٹیج سے اپنے ساتھ ایک گاڑی کی طرف لے گئے جو ان کی منتظر تھی۔ جب انھیں گاڑی میں بٹھایا جا رہا تھا تو انھوں نے ہوا میں اپنا مکّا لہرایا۔

سیکرٹ سروس کے مطابق ٹرمپ کی ریلی میں اسٹیج کی جانب کئی گولیاں چلائی گئیں جس میں ریلی میں شریک حملہ آور تھامس میتھیو کروکس سمیت دو افراد ہلاک اور دو شدید زخمی ہو گئے۔

ہم ٹرمپ پر حملہ کرنے والے شخص کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

* ایف بی آئی کے مطابق حملہ آور 20 سالہ نوجوان تھا جس کی شناخت تھامس میتھیو کروکس کے نام سے کی گئی ہے۔

* سیکریٹ سروس کے ترجمان انتھونی گگلیلمی کے مطابق ان کے ایجنٹس نے گولی چلانے والے مشتبہ شخص کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔

* کروکس کا تعلق پنسلوانیا کے بیتھل پارک سے تھا، ریلی کے مقام سے یہ جگہ تقریباً ایک گھنٹہ دور ہے۔

* ریاستی ووٹر ریکارڈ کے مطابق وہ ایک رجسٹرڈ ریپبلکن تھے۔

* تاہم خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 17 سال کی عمر میں انھوں نے ایکٹ بلیو کو 15 ڈالر کا عطیہ دیا جو بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے اور جمہوری سیاست دانوں کے لیے رقم اکٹھا کرنے والی ایک سیاسی ایکشن کمیٹی ہے۔

* پٹزبرگ ٹریبیون ریویو کے مطابق کروکس نے 2022 میں بیتھل پبلک پارک ہائی سکول سے گریجویشن کی۔ اخبار میں مزید کہا گیا ہے کہ انھیں نیشنل میتھ اینڈ سائنس انیشیٹو سے500 ڈالر کا سٹار ایوارڈ بھی ملا۔

* ان کے 53 سالہ والد میتھیو کروکس نے سی این ین کو بتایا کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ہوا کیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کچھ بھی کہنے سے قبل قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بات کریں گے۔

* سنیچر کے روز قانون نافذ کرنے والے حکام ننے کہا تھا کہ حملہ آور کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں تھا اور تفتیش کاروں کو دوسرے طریقوں (ڈی این اے) سے انھیں شناخت کرنا پڑا تھا۔

حملہ آور ڈونلڈ ٹرمپ سے کتنا دور تھا؟

ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ پر گولی چلنے سے پہلے انھوں نے ایک شخص (جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کروکس تھے) کو ایک عمارت کی چھت پر رائفل کے ساتھ دیکھا تھا۔

بی بی سی ویریفائی نے اس فوٹیج کا تجزیہ کیا ہے اور تصدیق کی ہے کہ مسلح شخص نے سابق صدر پر 200 میٹر سے بھی کم فاصلے سے ایک گودام نما فلیٹ کی عمارت کے اوپر سے فائرنگ کی۔

ٹی ایم زیڈ سے حاصل کردہ ویڈیو فوٹیج میں شوٹنگ شروع ہونے کا لمحہ دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی کے امیرکی پارٹنر سی بی ایس نیوز کی رپورٹ کے مطابق حملہ آور نے ’اے آر سٹائل رائفل‘ سے فائرنگ کی۔

تاہم ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ وہ فوری طور پر اس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ حملہ آور نے کس قسم کا اسلحہ استعمال کیا یا کتنی گولیاں چلائیں۔

ایجنسی کا کہنا ہے کہ سیکرٹ سروس کے ایک سنائپر نے جوابی فائرنگ سے حملہ آور کو ہلاک کر دیا۔

بعد کی فوٹیج میں مسلح اہلکاروں کو عمارت کی چھت پر ایک لاش کے قریب دیکھا جا سکتا ہے۔

جو بائیڈن اور غیر ملکی رہنماؤں کی جانب سے حملے کی مذمت

امریکی صدر جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’امریکہ میں اس قسم کے تشدد کی کوئی جگہ نہیں ہے اور ہر کسی کو اس کی مذمت کرنی چاہیے۔‘

وائٹ ہاؤس میں تعینات ایک افسر کے مطابق ریلی میں فائرنگ کے واقعے کے بعد صدر جو بائیڈن کی ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر گفتگو ہوئی ہے۔

رپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے سیاستدانوں نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔

برطانوی وزیراعظم سر کیئر سٹامر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں سیاسی تشدد کی کسی بھی شکل میں کوئی گنجائش نہیں اور میری دعائیں اس حملے کے متاثرین کے ساتھ ہیں۔‘

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے حملے پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’سیاسی عمل میں ہر قسم کا تشدد قابلِ مذمت ہے۔‘

امریکی ریاست پینسلوینیا کے شہر بٹلر میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں فائرنگ اس وقت ہوئی جب انھوں نے تقریر شروع ہی کی تھی۔

ڈونلڈ ٹرمپ اپنے حریف امیداوار امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے حوالے سے بات ہی کر رہے تھے کہ وہاں متعدد گولیاں چلنے کی آواز آئی۔

فائرنگ کے وقت ڈونلڈ ٹرمپ کے پیچھے ان کے حامی بھی زمین پر فوراً بیٹھ گئے۔ ریلی میں موجود افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لگتا ہے کہ گولیاں سٹیج کے دائیں جانب واقع ایک منزلہ عمارت سے چلائی گئیں۔

گریگ نامی ایک عینی شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سٹیج پر آنے سے پانچ منٹ پہلے انھوں نے ایک مشتبہ شخص کو عمارت کی چھت پر ’رینگتے ہوئے‘ دیکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے پولیس کو اس شخص کے بارے میں مطلع کر دیا تھا۔

گریگ نے مزید کہا: ’اس کے پاس رائفل تھی، ہم نے اسے واضح طور پر رائفل کے ساتھ دیکھا۔ ہم نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا، پولیس یہاں وہاں بھاگ رہی تھی۔‘

’ہم نے کہا وہاں ایک آدمی کے پاس رائفل ہے لیکن پولیس کو آئیڈیا ہی نہیں تھا کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔‘

جیسن نامی ایک اور عینی شاہد کے مطابق انھوں نے وہاں پانچ گولیوں کی آواز سُنی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حفاظت کے لیے سیکریٹ سروس کے ایجنٹس کو ان پر چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھا، وہاں موجود لوگ بھی فوراً نیچے بیٹھ گئے۔‘

’ڈونلڈ ٹرمپ اس کے فوری بعد کھڑے ہوگئے، اپنا مکّا لہرایا اور کچھ باتیں کیں۔‘

ٹِم نامی عینی شاہد کہتے ہیں کہ انھوں نے گولیوں کی ’بوچھاڑ‘ سُنی۔

’ہم نے صدر ٹرمپ کو زمین پر بیٹھتے ہوئے دیکھا اور پھر ہر کوئی زمین کی طرف جھک گیا کیونکہ وہاں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔‘

وارن اور ڈیبی بھی ان افراد میں شامل تھے جو ڈونلڈ ٹرمپ کی ریلی میں موجود تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سیکریٹ سروس کے ایجنٹس نے فوری طور پر وہاں موجود لوگوں کو نیچے جھکنے کا کہا۔

وارن کہتے ہیں کہ ’ہمیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب ہو رہا ہے۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ پیر کو ملواکی میں صدارتی انتخابات کے لیے رپبلکن پارٹی کا ٹکٹ قبول کرنے جا رہے تھے۔ یہ بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ وہ آج بٹلر میں منعقد ریلی میں اپنے نائب صدر کے امیدوار کے نام کا اعلان کرنے والے تھے۔

خیال رہے رواں برس نومبر میں ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن میں امریکی صدر جو بائیڈن کا سامنا کریں گے۔

کچھ رپبلکن رہنماؤں نے ریلی پر ہونے والی فائرنگ کے فوراً بعد اس حملے کا ذمہ دار صدر جو بائیڈن کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں ممکنہ واپسی سے متعلق خدشات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ پر حملے کے صدراتی مہم پر کیا اثرات پڑیں گے؟

حملے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مکّا لہرانے اور چہرے پر بہتے خون کی غیر معمولی تصاویر شاید امریکہ میں صدارتی الیکشن کی مہم پر اثر انداز ہوں۔

ایسی ہی ایک تصویر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ایرک ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر شیئر کی اور اپنے والد کے بارے میں لکھا: ’امریکہ کو جس فائٹر کی ضرورت ہے وہ یہ ہیں۔‘

دوسری جانب صدر بائیڈن کی انتخابی انتظامیہ نے تمام بیانات روک دیے ہیں اور وہ جلد از جلد ٹی وی پر نشر کیے جانے والے اشتہارات کو روکنے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرنا غیرمناسب ہوگا اور انھیں اپنی توجہ واقعے کی مذمت کرنے پر مرکوز رکھنی چاہیے۔

وہ تمام سیاستدان جو ڈونلڈ ٹرمپ سے اتفاق نہیں کرتے وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جمہوریت میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سابق امریکی صدور براک اوبامہ، جارج ڈبلیو بش، بل کلنٹن اور جمی کارٹر کی جانب سے بھی اس واقعے کی فوری مذمت کی گئی ہے۔

اس دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی اور حامی اس پُرتشدد واقعے کا ذمہ دار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ٹھہرا رہے ہیں۔

رپبلکن سینیٹر جے ڈی وانس نے کہا کہ اس واقعے کا سبب جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی بیان بازی ہے۔

دیگر رپبلکن رہنماؤں کی جانب سے بھی ایسے ہی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ یقینی طور پر ان کے مخالف سیاستدان ایسے خطرناک وقت پر ایسے بیانات کی مذمت کریں گے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایک پریشان کن واقعے کے بعد دونوں جماعتوں کے حامی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو رہے ہیں اور اس کے سبب امریکہ میں جاری صدارتی مہم کی شکل تبدیل ہو جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں