خیبر پختونخوا: بنوں کینٹ پر دہشت گردوں کا حملہ، 7 اہلکار ہلاک، میجر سمیت 60 سے زائد زخمی

بنوں + اسلام آباد (نمائندہ ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) صوبہ خیبر پختونخوا میں بنوں کینٹ کے پاس آج پیر کی علی الصبح ایک خودکش بمبار نے دھماکہ خیز مواد سے لدی گاڑی اڑا دی جب کہ اس کے ایک ساتھی نے کینٹ کی باہری دیوار کے پاس دھماکہ کردیا۔ اس واقعے میں کم از کم سات اہلکار ہلاک اور ایک افسر سمیت 60 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق ایک مقامی پولیس اہلکار طاہر خان نے بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے اس مربوط حملے کا فوراً جواب دیا اور دہشت گردوں کے بنوں کینٹ میں داخل ہونے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ بنوں کینٹ کے وسیع و عریض علاقے میں بالخصوص فوج کے دفاتر اور سکیورٹی فورسز کی رہائش گاہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آرمی کے ہیلی کاپٹر اور دیگر سکیورٹی اہلکار علاقے میں دہشت گردوں کی ممکنہ موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے گشت کررہے ہیں۔

پولیس اہلکار نے بتایا کہ اس حملے میں کم از کم آٹھ افراد زخمی ہوئے ہیں جب کہ متعدد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان حملوں میں کئی فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔

بنوں پولیس کے ضلعی پولیس سربراہ ضیاالدین نے بتایا کہ ابتدائی تفصیلات کے مطابق دھماکہ بارود سے بھری گاڑی سے کیا گیا جس سے مکانات اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ شیشے ٹوٹنے سے کچھ افراد زخمی ہوگئے ہیں اور ابھی آپریشن جاری ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی مؤثر کارروائی سے دہشت گردوں کو ایک کونے میں محصور کر دیا گیا، سکیورٹی فورسز نے علاقے میں کلیئرنس آپریشن بھی شروع کر دیا ہے۔ اس واقعے پرحکومت یا فوج کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔

نمائندہ ڈیلی اردو کو حکام نے بتایا کہ خودکش حملوں میں 7 اہلکار ہلاک اور میجر ذوالفقار سمیت 50 ے زائد زخمیوں کو سی ایم ایچ منتقل کیے گئے ہیں۔

سیکورٹی ذرائع نے ڈیلی اردو کو مزید بتایا کہ ہلاک ہونے والے اہلکاروں میں نائب صوبیدار شہزاد ، حوالدار ظل حسین ،سپاہی سبحان ، سپاہی ارسلان، حوالدار شہزاد ، سپاہی اشفاق ، لانس نائک سبز علی اور سپاہی امتیاز شامل ہے۔

سیکورٹی ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ فورسز نے آپریشن کے دوران پانچ حملہ آور کو ہلاک کردیا گیا ہے۔

بنوں کے پولیس افسر ضیاء الدین کے مطابق سیکورٹی فورسز نے کلیئرنس آپریشن شروع کر دیا ہے۔ پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں نے جائے وقوعہ اور چھاونی کی جانب جانے والے راستے بند کر دیے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دھماکوں کے بعد علاقے میں ہیلی کاپٹرز بھی پروازیں کر رہے ہیں۔

دوسری جانب حافظ ‎گل ‎بہادر گروپ کے ‎جیش ‎الفرسان محمد نے خود کش حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

کالعدم حافظ گل بہادر گروپ سے منسلک جیش الفراسان کے ترجمان نصرت اللہ وزیرستانی نے سوشل میڈیا اکاونٹ پر بنوں کینٹ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

عزم استحکام آپریشن کے جواب میں حافظ گل بہادر گروپ نے فتح بالنصرہ اللہ نامی آپریشن کا اعلان کیا تھا جس کی یہ پہلی کاروائی تھی۔

عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ

بنوں افغانستان کی سرحد سے ملحق خیبرپختونخوا میں واقع ہے۔ حالیہ برسوں میں اس صوبے میں عسکریت پسندوں کے حملے ہوتے رہے ہیں۔

یکم جولائی کو خیبرپختونخوا کے ضلع خیبر میں تختہ بیگ چوکی پر دہشت گردوں نے راکٹ لانچرز اور بھاری ہتھیاروں سے رات کی تاریکی میں حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں ناکہ بندی پر موجود ایک پولیس اور ایک ایف سی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

بنوں میں اس سے قبل میں بھی اگست 2023 میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملے میں کم از کم نو اہلکاروں کی جان گئی جب کہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔

جنوری 2023 میں پشاور میں عسکریت پسندوں نے خود کش حملہ کرکے کم از کم 101 افراد کو ہلاک کردیا تھا، جن میں بیشتر پولیس اہلکار تھے۔ حالانکہ کسی نے اس حملے کی ذمہ داری نہیں لی تھی لیکن شک کی سوئی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی طرف گئی تھی۔

پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور ان میں بیشتر کا ہدف سکیورٹی فورسز کے اہلکار رہے ہیں۔

حملے کا شبہ ٹی ٹی پی پر

پاکستانی حکومت کے عہدیدار حالیہ مہینوں میں متعدد بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی ملک میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے۔

اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے رواں ماہ ہی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ‘سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ بن گیا ہے، جسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے، جس کے لیے وہ اکثر افغانوں کو استعمال کرتی ہے۔‘

لیکن افغان حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور پاکستان کو تعاون کی یقین دہانیاں بھی کروائی جاتی رہی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں