عمان: مسقط امام بارگاہ پر حملہ، 4 پاکستانی شہریوں سمیت 9 افراد ہلاک، 30 پاکستانی زخمی

مسقط (ڈیلی اردو/بی بی سی) سوموار کی رات تقریبا 11 بجے عمان کے دارالحکومت مسقط کے قریب ایک امام بارگاہ علی بن ابو طالب پر ہونے والے حملے میں چار پاکستانی شہری ہلاک جبکہ کم از کم 30 زخمی ہوئے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق عمان کے حکام کی جانب سے وصول ہونے والی تازہ اطلاعات کے مطابق امام بارگاہ پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں گولیاں لگنے سے چار پاکستانی شہریوں کی ہلاکت ہوئی جبکہ 30 پاکستانی ہسپتالوں میں زیرعلاج ہیں۔

ہلاک ہونے والے پاکستانیوں کی شناخت غلام عباس، حسن عباس، سید قیصر عباس اور سلیمان نواز کے ناموں سے ہوئی ہے۔

https://x.com/PakinOman/status/1813180313868042613?t=taoSI_SsAbFgLSzJulBSQA&s=19

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان نے عمانی حکام کو تفتیش میں ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی ہے تاکہ ماہ محرم میں اس جرم کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔‘

’لوگ فون پر مدد کیلئے رابطہ کر رہے تھے‘

عمان میں پاکستان کے سفیر عمران علی نے بی بی سی کے لیے صحافی یسریٰ جبین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امام بارگاہ علی بن ابو طالب دارالحکومت مسقط کے نواحی علاقے الوادی الکبیر میں واقع ہے جہاں پاکستانی شہریوں کے علاوہ انڈیا اور بنگلہ دیش کے شہری بھی جاتے ہیں۔

https://x.com/PakinOman/status/1813143148614267389?t=OCSJhu4gfVRM4hVr1SVksw&s=19

پاکستانی سفیر عمران علی کے مطابق ’یہ ایک دہشت گرد حملہ تھا جس کے وقت اس امام بارگاہ میں 300 سے 400 لوگ موجود تھے جن میں بچے، بوڑھے، مرد اور خواتین بھی شامل تھیں۔‘

عمران علی نے بتایا کہ سوموار کی رات تقریبا 11 بجے حملہ ہوا۔

’حملہ 11 بجے ہوا جس کے دوران امام بارگاہ میں جاری مجلس میں موجود بچوں اور خواتین سمیت لوگوں کو تقریبا تین گھنٹے تک یرغمال بنایا گیا۔‘

ان کے مطابق امام بارگاہ میں یرغمال بنائے جانے والے پاکستانی شہریوں نے ان سے اسی حملے کے دوران رابطہ کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’عمان میں رہائش پذیر تقریبا تمام پاکستانی شہریوں کے پاس میرا واٹس ایپ نمبر ہے۔ لوگ مجھ سے رابطہ کر رہے تھے اور مدد مانگ رہے تھے اور رو رہے تھے۔‘

اس دوران پاکستانی سفیر عمان کے حکام سے رابطے میں تھے اور عمران علی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’رات ڈھائی بجے کے قریب عمان کی پولیس نے یرغمالیوں کو باحفاظت ریسکیو کر لیا تھا۔‘

عمران علی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں لوگوں نے بتایا کہ ’حملہ آوروں کی تعداد پانچ تھی۔‘

عمران علی نے مزید بتایا کہ ان کے پاس حملہ آوروں کی شناخت کے حوالے سے معلومات تو موجود ہیں لیکن عمانی حکام نے ان سے اس بارے میں بات نہ کرنے کی درخواست کی ہے۔

عمران علی نے بی بی سی کو بتایا کہ زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے خولہ ہسپتال، ناہدہ ہسپتال اور رائل ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

بی بی سی عربی کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کئی صارفین نے اس حملہ کی ویڈیوز شیئر کی ہیں اور عالمی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ویڈیوز میں لوگوں کو بارگاہ کے قریب گولیوں کی آوازوں کے درمیان منتشر ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے اور ’لبیک یا حسین‘ کے نعرے گونج رہے ہیں۔

واضح رہے کہ پاکستانی سفیر کے مطابق عمان میں تقریباً چار لاکھ سے زائد پاکستانی شہری مقیم ہیں۔

عمانی حکام کا کیا کہنا ہے؟

ادھر عمان کی حکومت اور حکام کی جانب سے ابھی تک اس حملے کے بارے میں زیادہ معلومات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

عمان پولیس کی جانب سے ایک مختصر بیان میں بتایا گیا کہ ’الوادی الکبیر میں فائرنگ کے واقعے کے بعد پولیس نے کارروائی کی جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق چار افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے ہیں۔‘

https://x.com/RoyalOmanPolice/status/1813005501937877041?t=I96dkbwxP-2qi_WyHngEkg&s=19

عمان کی پولیس کے بیان میں بتایا گیا کہ ’اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے اور شواہد اکھٹا کرنے اور تفتیش کا عمل جاری ہے۔‘

پولیس کی جانب سے حملہ آوروں کی شناخت کے بارے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا۔

عمان میں اس طرح کا پرتشدد واقعہ پیش آنا حیران کن ہے کیوں کہ مشرق وسطی کی یہ ریاست خطے میں کافی مستحکم اور محفوظ سمجھی جاتی ہے۔

اسی وجہ سے عمان نے خطے میں جاری تنازعوں میں مصالحت کی کوششوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

عمان کی مجموعی آبادی تقریبا 46 لاکھ کے قریب ہے جس میں سے 40 فیصد غیر ملکی ہیں۔ تاہم عمان کی حکومت آبادی کے مذہبی اعداد و شمار شائع نہیں کرتی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے تخمینوں کے مطابق عمان کی آبادی میں 95 فیصد مسلمان ہیں جن میں سے 45 فیصد سنی جبکہ پانچ فیصد شیعہ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں