چین کی حماس اور فتح کے مابین مفاہمت کرانے کی پیشکش

بیجنگ (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/رائٹرز) چین نے حریف فلسطینی دھڑوں حماس اور فتح کے درمیان “مفاہمت” میں سہولت کا ر کا کردار ادا کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ فتح کا کہنا ہے کہ اس کے عہدیدار رواں ماہ بیجنگ میں حماس کے اپنے ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔

فتح کی مرکزی کمیٹی کے ڈپٹی سکریٹری جنرل صبری صیدم نے بتایا کہ ان کی تنظیم کے عہدیداران 20 اور 21 جولائی کو بیجنگ میں چینی حکام سے ملاقات کریں گے۔

الفتح کے ذرائع کے مطابق حماس کے وفد کی قیادت قطر میں مقیم اس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہانیہ کریں گے جب کہ الفتح کی نمائندگی نائب سربراہ محمود الاول کریں گے۔

جب چینی حکام سے اس حوالے سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا،”بیجنگ اس سلسلے میں اطلاعات مناسب وقت پر شائع کرے گا۔”

حماس اور فتح کی بیجنگ میں ملاقات

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ چین نے ہمیشہ فلسطین میں تمام فریقین کی بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے مفاہمت اور اتحاد کے حصول کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیجنگ “مذاکرات اور مفاہمت کو فروغ دینے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے اور مسئلہ فلسطین پر تمام فریقین کے لیے مواقع پیدا کرنے کے لیے تیار ہے۔”

لی جیان کا کہنا تھا،”چین تمام فریقوں کے ساتھ رابطے کو مضبوط بنانے اور فلسطینیوں کے باہمی مفاہمت کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کررہا ہے۔”

امید کی کرن

خیال رہے کہ سن 2006 کے انتخابات میں حماس کی شاندار کامیابی اور اس کے بعد ہونے والی ہلاکت خیز جھڑپوں کے بعد حماس نے فتح کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کردیا تھا، جس کے بعد سے ہی یہ دونوں گروپ ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔

سن 2007 میں غزہ کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے اس علاقے پر حماس کی حکومت ہے۔

دوسری طرف سیکولر تحریک فتح فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرتی ہے، جس کا اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں جزوی انتظامی کنٹرول ہے۔

حماس اور فتح کے درمیان مفاہمت کرانے کی متعدد کوششیں اب تک ناکام رہی ہیں۔ لیکن سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے مفاہمت کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔

چین نے اپریل میں فتح اور حماس کے رہنماؤں کی میزبانی کی تھی لیکن جون میں طے شدہ اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا۔

چین نے اپنے حریف امریکہ کے مقابلے اسرائیل فلسطین تنازع میں خود کو زیادہ غیر جانبدار فریق کے طورپر پیش کیا ہے۔ اس نے دو ریاستی حل کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے ساتھ اچھے تعلقات بھی برقرار رکھے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں