المواصی حملہ: کیا اسرائیل نے امریکی ہتھیار استعمال کیے؟

یروشلم (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی) اسرائیل نے جنوبی غزہ کے علاقے المواصی پر ایک بڑا فضائی حملہ کیا، جس کے نتیجے میں بانوے افراد ہلاک جب کہ تین سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس واقعے پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔ ہم اس حملے کے بارے میں کیا کچھ جانتے ہیں؟

پچھلے ہفتے اسرائیلی طیاروں نے جنگ زدہ جنوبی غزہ پٹی میں خان یونس اور رفح کے قریب ہی واقع علاقے المواصی پر ایک بڑا فضائی حملہ کیا تھا، حالانکہ المواصی کو خود اسرائیلی حکومت نے ہی ”محفوظ علاقہ‘‘ قرار دے رکھا ہے اور وہاں بہت بڑی تعداد میں بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے ہیں۔ تاہم اس علاقے میں اسرائیلی طیاروں نے امریکی ساختہ بڑے بم گرائے، جس کے نتیجے میں کم از کم 92 افراد ہلاک جب کہ تین سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ اس اسرائیلی کارروائی کے بعد علاقے کے ہسپتالوں میں بڑی تعداد میں زخمی لائے گئے۔

ہدف کون تھا؟

اسرائیلی موقف ہے کہ اس نے اس حملے میں عسکریت پسند تنظیم حماس کی جانب سے اسرائیل میں سات اکتوبر کو کیے گئے ایک دہشت گردانہ حملے کے منصوبہ ساز کو نشانہ بنایا تھا۔ اسرائیلی بیان کے مطابق اس حملے کا ہدف محمد ضیف نامی عسکری کمانڈر تھا۔ حملے کے بعد اسرائیل نے رافا سلما نامی ایک جنگجو کمانڈر کی ہلاکت کی تصدیق کی تاہم محمد ضیف کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہو پائی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے جاری کردہ اس حملے کی ویڈیوز میں ایک انتہائی مصروف گلی سے سفید دھوئیں کے بادل اٹھتے نظر آر ہے ہیں۔ اس حملے سے ایک مقام پر ایک بڑا گڑھا پڑ گیا اور وہاں موجود کئی ٹینک اور ایک عمارت راکھ کا ڈھیر بن گئے۔

کون سے ہتھیار استعمال ہوئے؟

نیوز ایجنسی اے ایف پی نے ہتھیاروں کے دو ماہرین کے حوالے سے بتایا ہے کہ آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیوز اور جائے وقوعہ کی فوٹیج سے واضح ہوتا ہے کہ المواصی کے حملے میں امریکی ساختہ جوائنٹ ڈائریکٹ اٹیک میونیشن (JDAM) کٹ کا استعمال کیا گیا تھا۔ اے ایف پی اپنے طور پر اس ویڈیو کی تصدیق نہیں کر پائی۔

ماہرین کے مطابق جے ڈی اے ایم کٹ جی پی ایس نظام کے ساتھ نتھی ہوتی ہے اور انتہائی درستی سے اپنے ہدف کو نشانہ بناتی ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ المواصی میں کیے گئے حملے میں تقریباﹰ ساڑھے چار سو سے نو سو کلوگرام تک وزنی بم کا استعمال کیا گیا ہوگا۔

غزہ کے انتہائی گنجان آباد علاقوں میں اس طرز کے بڑے بموں کے استعمال پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ ساتھامریکہ کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اسی تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن پر دباؤ تھا کہ وہ اسرائیل کو اس انداز کے بھاری بموں کی ترسیل روکے رکھیں، تاہم بارہ جولائی کو یہ پابندی ختم کر دی گئی جب کہ صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ دو ہزار پاؤنڈ وزن کے امریکی بموں کی اسرائیل کو ترسیل پر پابندی برقرار رہے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں