بیجنگ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) چین نے تائیوان کو امریکی ہتھیاروں کے فروخت کے رد عمل میں امریکہ کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق مذاکرات کو روک دیا ہے۔ اس کے مطابق تائیوان کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت سیاسی ماحول سے سمجھوتہ کرنے کے مترادف ہے۔
چین نے بدھ کے روز کہا کہ تائیوان کے لیے امریکی ہتھیاروں کے فروخت کے رد عمل میں بیجنگ نے واشنگٹن کے ساتھ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق مذاکرات کو روک دیا ہے۔ ادھر امریکہ نے چین پر الزام لگایا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے روس کی پیروی کر رہا ہے۔
چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ حالیہ مہینوں میں تائیوان کے لیے بار بار امریکی ہتھیاروں کی فروخت کی وجہ سے، ”اسلحے پر قابو پانے کے بارے میں صلاح و مشورہ جاری رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی ماحول کے ساتھ سنجیدگی سے سمجھوتہ کیا جائے۔”
تائیوان ایک قدر خود مختار جزیرہ ہے، جس پر اپنی جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے۔ تاہم بیجنگ اس جزیرے کو اپنی سرزمین کا ہی حصہ سمجھتا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کی انہیں سرگرمیوں کی وجہ سے بیجنگ جوہری ہتھیاروں کے کنٹرول پر ہونے والی بات چیت کو روکنے پر مجبور ہے۔
اس نے کہا، ”نتیجتاً، چینی فریق نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے کنٹرول اور عدم پھیلاؤ کے بارے میں مشاورت کے ایک نئے دور پر بات چیت کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کی ذمہ داری پوری طرح سے امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔”
امریکہ کا رد عمل
بائیڈن انتظامیہ ”کمپارٹمنٹلائزیشن” کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، یہ پالیسی اس بات کی وکالت کرتی ہے کہ جوہری عدم پھیلاؤ کو دوسرے چین-امریکی مسائل سے الگ رکھا جائے۔ اور جب چین نے جوہری عدم پھیلاؤ پر ہونے والے مذاکرات کو روک دیا، تو امریکی محکمہ خارجہ نے بدھ کے روز چین کے اس اقدام کو ”بدقسمتی” قرار دیا۔
ایک امریکی ترجمان نے کہا کہ ”چین نے یہ کہتے ہوئے روسی قیادت کی پیروی کرنے کا انتخاب کیا ہے کہ جب دوطرفہ تعلقات میں دیگر چیلنجز ہوں، تو ہتھیاروں کے کنٹرول پر بات چیت آگے نہیں بڑھ سکتی۔”
ترجمان نے مزید کہا، ”ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نقطہ نظر اسٹریٹجک استحکام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس سے ہتھیاروں کی دوڑ کی حرکیات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔”
امریکہ اور تائیوان کے تعلقات
امریکہ ایک طرف تو ون چائنا یعنی متحدہ چین کی پالیسی پر عمل کرنے کی بات کرتا ہے اور سفارتی معاملات میں وہ چین سے ربط رکھتا ہے، تاہم تائیوان کو الگ سے ہتھیار بھی فراہم کرتا ہے۔
اس دوران ایک نئی پیش رفت میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ تائیوان کو اپنے دفاع کے لیے امریکہ کو رقم ادا کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ جزیرے تائیوان کے لیے ایک ”انشورنس کمپنی سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔”
امریکی صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کو تائیوان کے ساتھ امریکہ کی فوجی وابستگی پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تائی پے کو چین کے خلاف ”تحفظ کے لیے ہمیں ادائیگی کرنی چاہیے۔”
بلومبرگ بزنس ویک کے ساتھ ایک انٹرویو میں، ٹرمپ نے کہا کہ وہ تائیوان کے لوگوں کو ”بہت اچھی طرح” جانتے ہیں اور ”ان کا بہت احترام کرتے ہیں ” تاہم کہا کہ انہوں نے ”ہمارے چپ کاروبار کے لیے تقریباً 100 فیصد حصہ لیا ہے” اور اس لیے ” دفاع کے لیے انہیں ہمیں ادائیگی کرنی چاہیے۔”
انہوں نے کہا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں، امریکہ تائیوان کے لیے ”کسی انشورنس کمپنی سے مختلف نہیں ہے”، جو ”ہمیں کچھ بھی نہیں دیتا۔”
ٹرمپ اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ آیا چین کے حملے کی صورت میں امریکہ تائیوان کے دفاع میں مدد کرے گا یا نہیں۔