سرینگر (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے محّرم کے ایک ماتمی جلوس کے دوران فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل اور امریکہ کے خلاف نعرے لگانے اور فلسطینی پرچم لہرانے پر انسدادِ دہشت گردی قانون کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
پولیس نے لگ بھگ ایک درجن افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کیس کی تحقیقات مکمل ہونے پر باضابطہ گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔
یہ ماتمی جلوس 15 جولائی کو سرینگر میں نکالا گیا تھا اور پولیس کے مطابق اس دوران لبنانی عسکریت پسند تنظیم حزب اللہ اور اس کے لیڈر حسن نصر اللہ کے حق میں بھی نعرے بازی کی گئی۔
سرینگر کے کوٹھی باغ پولیس تھانے میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون یو اے پی اے کی دفعہ 13 اور بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این ایس) کی دفعات 223 اور 152 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ تاہم اس ایف آئی آر میں کسی کا نام درج نہیں کیا گیا ہے۔
کشمیر کے انسپکٹر جنرل آف پولیس ودھی کمار بردی نے شیعہ عزاداروں کے خلاف سخت گیر قوانین کے تحت مقدمہ درج کرنے کا دفاع کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آٹھ محرم کو سرینگر کے گرو بازار علاقے سے جن شرائط کے تحت روایتی ماتمی جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی تھی بعض شر پسند عناصر نے اس کی خلاف ورزی کرکے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے پولیس کے لیے قانونی کارروائی کرنا ناگزیر ہے۔
پولیس کے مطابق جلوس کے دوران لگائے گئے نعروں اور غیر متعلقہ سرگرمیوں سے علاقے میں بد امنی اور امن و امان کی صورتِ حال خراب ہونے کا خدشہ ہے۔
واضح رہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں تقریباً 35 سال پہلے مسلح تحریکِ مزاحمت جسے بھارت دہشت گردی قرار دیتا ہے، کے آغاز پر حکومت نے محرم کی آٹھ اور دس تاریخ کو سرینگر میں روایتی راستوں سے ماتمی جلوس نکالنے پر پابندی عائد کی تھی۔
تاہم گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی حکام نے عزاداروں کو بعض شرائط کے ساتھ آٹھویں محرم کو شہر کے گرو بازار سے ماتمی جلوس نکالنے کی اجازت دی تھی جب کہ دس محرم کو سرینگر کے آبی گذر علاقے سے ذولجناح کا جلوس نکالنے پر پابندی جاری رہی۔
تاہم شیعہ مسلمانوں کو شہر کے ان علاقوں میں جہاں وہ اکثریت میں آباد ہیں بعض ضوابط کے ساتھ جلسے منعقد کرنے اور جلوس نکالنے کی اجازت دی جاتی رہی ہے۔
بدھ کو یومِ عاشور کے موقعے پر وادئ کشمیر کے ساتھ ساتھ جموں اور لداخ خطوں میں بھی تعزیے نکالے گئے اور جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا گیا جن میں بڑی تعداد میں عزاداروں نے شرکت کی۔
مختلف شیعہ تنظیموں نے سرینگر میں عزاداروں کو حراست میں لینے اور پولیس کی طرف سے فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کرنے پر مقدمہ درج کرنے کی مذمت کی ہے۔
سرکردہ شیعہ مذہبی اور سیاسی رہنما مولوی مسرور عباس انصاری نے کہا کہ آٹھ محرم کو سرینگر میں نکالے گئے ماتمی جلوس کے دوران مقامی انتظامیہ کی طرف سے جاری کی گئیں تمام ہدایات پر عمل کیا گیا۔ لیکن اس کے باوجود پولیس نے عزاداروں کے خلاف کارروائی کی۔
ان کے بقول کئی عزاداروں کو محض اس لیے شہر کے ہارون پولیس تھانے طلب کیا گیا کہ انہوں نے جلوس کے دوراں کفن پہنے تھے۔ انہوں نے کہا کہ “جموں و کشمیر پولیس کو ان چھوٹے معاملات کو بہانہ بنا کر عزاداروں کو ہراساں کرنے کی روش ترک کرنی چاہیے۔”
ایک اور شیعہ مذہبی رہنما آغا سید محمد ہادی کشمیری کہتے ہیں کہ پولیس نے سرینگر اور وسطی ضلع بڈگام میں چوراہوں اور دیگر مقامات پر لگائے گئے فلسطینی پرچم کو ہٹا دیا اور سرینگر کے ماتمی جلوس کے کئی شرکا کو غزہ کے لوگوں سے اظہار یکجہتی پر حراست میں لے لیا۔
حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ نے کہا ہے کہ اگر فلسطینیوں کی حمایت کرنا جرم ہے تو بھارتی حکومت کو فلسطینیوں سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ “بھارتی حکومت کا فلسطین پر مؤقف واضح ہے۔ فلسطینی جدو جہدِ آزادی کی حمایت بھارت کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز رہی ہے اور اس نے حال ہی میں آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع پر نئی دہلی کی پالیسی مستقل رہی ہے۔ اس لیے اگر کشمیر پولیس کو ایف آئی آر درج کرنا تھی تو وہ بھارتی حکومت کے خلاف کرنی چاہیے تھی۔”
آغا روض اللہ نے کہا کہ عزاداروں کو فلسطینیوں کے حق میں نعرے لگانے یا فلسطینی پرچم لہرانے پر حراست میں لینا آزادئ اظہارِ رائے پر حملہ بھی ہے۔
نئی دہلی میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک مقامی لیڈر سویندو ادھیکاری نے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو اپ لوڈ کی ہے جس میں ریاست مغربی بنگال کے مرشد آباد ضلعے میں بدھ کو یومِ عاشور کے موقعے پر نکالے گئے ایک جلوس کے دوران مبینہ طور پر فسطینی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
مغربی بنگال کی پولیس نے کہا ہے کہ اسے ایسی کوئی اطلاع نہیں ملی ہے تاہم وہ معاملے کی تحقیقات کرے گی۔
اُدھر بھارت نے اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال پر بحث کے دوران ایک بار پھر غزہ کی پٹی میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی یرغمالوں کی رہائی پر زور دیا ہے۔
غزہ میں جاری اسرائیل حماس جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
اسرائیل کی جانب سے شروع کیے گئے جوابی حملوں میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 38 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔