بیلا روس میں ’دہشت گردی‘ کے الزام پر جرمن شہری کو سزائے موت

منسک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) انسانی حقوق کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق 30 سالہ ریکو کے کو بیلاروس کی ایک عدالت نے جون کے آخر میں مجرم قرار دیا تھا۔ برلن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس حوالے سے منسک حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے۔

بیلاروس میں ایک جرمن شہری کو ”دہشت گردی‘‘ اور ”رقم کے بدلے غیر ملکی اشاروں پر سرگرمیوں‘‘ میں ملوث ہونے سمیت دیگر مبینہ جرائم پر موت کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس بات کی اطلاع انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ویاسنا نے دی ہے۔

اس تنظیم کے مطابق 30 سالہ ریکو کے کو منسک کی ایک عدالت نے جون کے آخر میں ایک خفیہ مقدمے کی کارروائی میں مجرم قرار دیا تھا۔

ہم اب تک کیا جانتے ہیں؟

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس سزا کا تعلق کسٹس کالینوسکی رجمنٹ سے ہے، جو بیلاروسی شہریوں پر مشتمل ایک فوجی یونٹ ہےاور وہ یوکرین کے ساتھ مل کر روس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس رجمنٹ کا نام بیلاروسی پولش مصنف، صحافی، وکیل اور انقلابی کسٹس کالینوسکی کے نام پر رکھا گیا ہے، جنہیں 1864 میں روس کے خلاف بغاوت کی قیادت کرنے پر پھانسی دی گئی تھی۔

ویاسنا کا کہنا ہے کہ ریکو کے کو بیلاروس کے ضابطہ فوجداری کے چھ آرٹیکلز کی خلاف ورزی کا قصوروار پایا گیا ہے، جن میں معاوضے کے عوض کارروائیوں، خفیہ ایجنسی کی سرگرمیوں، دہشت گردی کی کارروائیوں، ایک انتہا پسند گروپ کے قیام، جان بوجھ کر گاڑی یا مواصلاتی ڈیوائس کو ناقابل استعمال بنانا اور آتشیں اسلحے، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد سے متعلق غیر قانونی کارروائیاں شامل ہیں۔

گرفتار جرمن شہری پر بیلاروس میں ”دھماکوں‘‘ کی سازش کرنے کا بھی الزام تھا۔ ویاسنا نے کہا کہ وہ نومبر 2023 سے زیر حراست ہیں۔

ریکو کے لنکڈ اِن پروفائل کے مطابق وہ جرمن ریڈ کراس میں بطور فوجی ڈاکٹر ملازم ہیں۔ اس سے قبل وہ برلن میں امریکی محکمہ خارجہ کے لیے مسلح اسپیشل سکیورٹی آفیسر کے طور پر کام کرتے تھے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا انہوں نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے۔

برلن کی تصدیق

جرمنی کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ”یہ معاملہ وزارت خارجہ کو علم میں ہے۔ وزارت خارجہ اور منسک میں سفارت خانہ متعلقہ شخص کو قونصلر مدد فراہم کر رہے ہیں اور بیلاروسی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا، ”سزائے موت سزا کی ایک ظالمانہ اور غیر انسانی شکل ہے، جسے جرمنی ہر حال میں مسترد کرتا ہے۔ ہم دنیا بھر میں اس کے خاتمے کے لیے کام کر رہے ہیں اور تمام متاثرہ افراد کے ساتھ اس کے نفاذ کے خلاف سخت محنت کر رہے ہیں۔‘‘

لیتھوانیا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والی بیلاروسی حزب اختلاف کی رہنما سویٹلانا تسخانوسکایا نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ ”اس خبر سے پریشان ہیں کہ جرمن شہری ریکو کے کو بیلاروس میں لوکاشینکو کی حکومت نے موت کی سزا سنائی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا، ”ہم اس وقت اس کے کیس کے بارے میں مزید معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ جو کچھ ہم جانتے ہیں، اس کے مطابق ان (ریکو) پر ‘انتہا پسندی‘ سے متعلق کئی نام نہاد جرائم کا الزام ہے۔‘‘

سزائے موت کا استعمال کرنے والی یورپ کی آخری قوم
بیلاروس وہ واحد یورپی ملک ہے، جہاں اب بھی سزائے موت دی جاتی ہے۔ اس اقدام کا شکار خاص طور پر مرد ہوتے ہیں۔ گزشتہ دوسالوں میں بیلاروس نے سنگین غداری اور ”دہشت گردی کی کوشش‘‘ کے الزامات کے تحت پھانسیوں کی منظوریاں دی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں