مظاہرین پر فائرنگ کے بعد بنوں میں ’امن مارچ‘ دھرنے میں تبدیل، وزیراعلیٰ کا تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بنوں میں دوسرے روز بھی مقامی افراد کا احتجاج جاری ہے۔ اس مارچ کے شرکا بنوں میں امن کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے کے مطالبات کر رہے ہیں۔

گذشتہ روز بنوں کی تاجر برادری کی درخواست ’امن مارچ‘ کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ جمعے کی دوپہر احتجاجی مارچ میں فائرنگ اور بھگڈر مچنے سے چار افراد ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ آج مقامی افراد کا یہ ’امن مارچ‘ دھرنے میں بدل گیا۔

یہ مقامی افراد بنوں کے ایک مرکزی چوک میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں جو صبح آٹھ بجے شروع ہوا ہے اور دن دو بجے تک جاری رہے گا۔ دھرنے کی جگہ پولیس لائن اور چھاؤنی کے قریب ہے جہاں چند روز قبل ایک خودکش دھماکے میں فوج کے آٹھ اہلکار اور دس حملے آور ہلاک ہوئے تھے۔

گذشتہ روز مولانا عبدالغفار نے تمام قائدین کے ساتھ مذاکرات کے بعد دھرنے کا اعلان کیا تھا۔ آج دھرنے میں شریک افراد گذشتہ روز فائرنگ کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

وزیراعلیٰ کا واقعے کی شفاف تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا اعلان

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے گذشتہ روز پیش آنے والے فائرنگ کے واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ بیرسٹر سیف کے مطابق کمیشن شفاف اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گا۔

ان کے مطابق رپورٹ کو پبلک کیا جائے گا اور ذمہ داران کے کردار کا تعین کرکے قانونی کاروائی کی جائے گی۔

گذشتہ روز بنوں شہر کے خلیفہ گل نواز ہسپتال کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ اس واقعے کے بعد ایک شخص کی لاش جبکہ 23 زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے زیادہ تر کو بھگدڑ کی وجہ سے چوٹ لگی ہے تاہم کچھ گولی لگنے سے بھی زخمی ہوئے ہیں۔ خیال رہے کہ احتجاجی مارچ کے شرکا کے مطابق فائرنگ اور بھگدڑ کا واقعہ سپورٹس کمپلیکس کے راستے پر پیش آیا ہے جہاں مارچ کے شرکا جلسے کے لیے جمع ہونے جا رہے تھے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان نے موجودہ دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر عوام سے انتہائی احتیاط سے کام لینے کی درخواست ہے۔

انھوں نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ سے قبل افواہوں اور بلا تصدیقالزامات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

خیبرپختونخوا میں گذشتہ چند ماہ میں یوں تو شدت پسندی کے واقعات میں ایک بار پھر اضافہ سامنے آیا ہے تاہم حالیہ دنوں میں بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے باعث اس احتجاج کا اعلان کیا گیا۔ تین روز قبل بنوں کینٹ پر اور اس کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی علاقے میں مرکز صحت پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد اس امن مارچ کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس احتجاج میں حکومت سے شہریوں کو جان و مال اور عزت کا تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

بنوں چیمبر آف کامرس کے رہنما اور امن پاسون کے قائدین میں شامل ناصر بنگش نے کہا ہے کہ ’امن مارچ‘ پر فائرنگ کے بعد لوگوں میں غصہ پایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مارچ میں شامل بچے تھے جنھوں نے پتھراؤ کیا ہے تو انھیں دور کرنے کے لیے ہوائی فارنگ یا آنسو گیس کے شیل پھینکے جا سکتے تھے لیکن اس طرح فائرنگ مناسب نہیں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے مطالبات سامنے رکھے ہیں اس میں جو پیش رفت ہو گی اس سے آگاہ کیا جائے گا۔

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے بی بی سی کو بتایا کہ بنوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف شہریوں کے احتجاجی ’امن مارچ‘ میں فائرنگ کے واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں ذمہ داران کا تعین کر کے انھیں قانون کے تحت سزا دی جائے گی۔

وزیراعلی بنوں انتظامیہ اور ذمہ داران کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔

ان کے مطابق ’صوبائی حکومت کے بروقت اقدامات کی بدولت صورتحال قابو میں ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ گذشتہ روز کے افسوسناک واقعے کے فوری بعد وزیر اعلی کے حکم پر ضلعی انتظامیہ، سیاسی اور سماجی عمائدین پر مشتمل جرگہ تشکیل دیا گیا تھا اور پھر جرگے کی تشکیل کے بعد صورتحال قابو میں لائی گئی اور امن بحال ہوا۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی و سماجی عمائدین اور انتظامیہ پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دی جا رہی ہے جو دیرپا امن اور آئندہ ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات پر مبنی لائحہ عمل تیار کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ امن و امان کے معاملے میں عوام کی مشاورت سے تمام اقدامات کئے جائیں گے۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ فی الحال ان کے پاس فائرنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی مصدقہ تعداد کے حوالے سے معلومات نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی نے واقعے میں ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کے لیے پیکیج کا اعلان کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں