عزم استحکام فوجی آپریشن نہیں بلکہ مہم ہے، ایک لابی نہیں چاہتی کہ اسکے مقاصد پورے ہوں، ڈی جی آئی ایس پی آر

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے) پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے وضاحت کی ہے کہ آپریشن عزم استحکام ایک فوجی آپریشن نہیں بلکہ انسداد دہشتگردی کی مہم ہے جس کا ماضی کے آپریشنز ضرب عضب اور راہ نجات سے موازنہ درست نہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک بیانیے کے ذریعے آپریشن عزم استحکام کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔

پیر کو راولپنڈی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ حالیہ کچھ عرصے میں افواج کے خلاف منظم پروپیگنڈے اور جھوٹ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے اس سال 22 ہزار 409 انٹیلی جینس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 137 فوجی افسران اور جوان نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جو سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے یہ ڈیجیٹل دہشت گردی ہے۔ ‘ڈیجیٹل دہشت گردوں’ کا نہیں پتا ہوتا کہ وہ کس ملک سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹل دہشت گردوں کو قانون اور سزاؤں نے روکنا ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ سے پیر کو پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کی جانب سے پوچھا گیا کہ ماضی کے ’راہ نجات‘ اور ’ضرب عضب‘ کا موازنہ عزم استحکام سے کیا جا رہا ہے اور سیاسی حلقوں میں ممکنہ طور پر مقامی لوگوں کے بے گھر ہونے کے حوالے سے خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ (ملک کے) سنجیدہ مسائل کو بھی سیاست کو بھینت چڑھایا جاتا ہے۔ عزم استحکام اس کی مثال ہے۔‘

’حکومت بھی کہہ چکی ہے کہ آپریشن عزم استحکام ایک مربوط، انسداد دہشتگردی مہم ہے، کوئی ملٹری آپریشن نہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ 22 جون کو ایپکس کمیٹی کے اعلامیے میں کہا گیا کہ نیشنل ایکشن پلان میں پیشرفت کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس ضرورت کا اظہار کیا کہ ملک میں جامع انسداد دہشتگردی کی مہم کی ضرورت ہے۔ ترجمان نے اسی اعلامیے کے حوالے سے کہا کہ ملک میں انسداد دہشتگردی مہم کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی جائے گی اور قانون سازی کی جائے گی۔

پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ملک میں ’ایک بیانیہ بنایا گیا کہ آپریشن سے لوگ بے گھر ہوں گے اور اس کی مخالفت کی جانی چاہیے۔‘

’یہ ہماری بقا کا معاملہ ہے، ہم سنجیدہ معاملے کو بھی سیاست کی وجہ سے مذاق بنا دیتے ہیں۔‘

انھوں نے سمگلنگ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آپریشن عزم استحکام کا ایک اہم مقصد دہشتگردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو ختم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں بے نامی پراپرٹیز، سمگلنگ اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ذریعے دہشتگرد آپریٹ کر رہے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے سوال کیا کہ ’عزم استحکام کو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے؟ ۔۔۔ ایک مضبوط لابی چاہتی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور عزم استحکام کے مقاصد پورے نہ ہوں۔‘

’کیوں ایک بہت بڑا مافیا، سیاسی مافیا، غیر قانونی مافیا ہر جگہ سے کھڑا ہوگیا کہ ہم نے یہ کام نہیں ہونے دینا۔ وہ اسے جھوٹ کی بنیاد پر متنازع بنانا چاہتے ہیں۔‘

فوج کے ترجمان نے نیشنل ایکشن پلان کے مقاصد، اب تک کی کارروائی کی تفصیلات اور دیگر معلومات پر مبنی سلائیڈز پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہر گھنٹے چار سے پانچ انٹیلیجنس کی بنیاد پر انسداد دہشتگردی آپریشن کر رہے ہیں۔‘

‘نان کسٹم پیڈ گاڑیوں سے دہشت گردی ہوتی ہے’

لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر غیر رجسٹرڈ گاڑیاں دہشت گردوں کی آمد و رفت کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔

افغانستان کے تاجکستان اور دیگر ملکوں کے ساتھ بھی بارڈرز ملتے ہیں، لیکن پاکستان کے ساتھ ‘سافٹ بارڈر’ کے ذریعے کروڑوں، اربوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ افغان شہری دیگر ممالک میں ویزے لے کر جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں ‘تذکرہ’ اور سناختی کارڈز دکھا کر داخل ہو جاتے ہیں۔

فوج کے ترجمان کے بقول چمن بارڈر پر کئی ماہ سے دھرنا اسی لیے جاری تھا تاکہ اس ‘سافٹ بارڈر’ کے ذریعے ہونے والے کاروبار کو بچایا جا سکے۔

بنوں مارچ میں فائرنگ کے واقعے پر ردِعمل دیتے ہوئے لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ امن مارچ میں کچھ شرپسند عناصر شامل تھے جنہوں نے فوج کے خلاف نعرہ بازی کی اور وہاں ایک گودام کو لوٹ لیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ اس پر فوج نے جو ردِعمل دیا وہ ایس او پیز کے مطابق تھا۔

لیفٹننٹ جنرل احمد شریف کا کہنا تھا کہ نو مئی کو بھی ایک انتشاری ٹولے نے یہ بیانیہ چلایا کہ فوج نے نو مئی کو مظاہرین کو کیوں نہیں روکا۔ لیکن فوج کا یہ طریقہ کار ہے کہ اگر کوئی انتشاری ٹولہ آتا ہے تو اسے ایس او پیز کے مطابق نمٹا جاتا ہے۔

فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جب تک نو مئی کے انتشاری ٹولے کو کیفرِکردار تک نہیں پہنچایا جاتا اس وقت تک یہ فسطائیت جاری رہے گی۔

خیال رہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے گذشتہ ماہ آپریشن عزم استحکام کا اعلان کیا گیا تھا جس پر ملک کے بعض سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے تحفظات ظاہر کیے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں