جیل میں ‘دہشت گرد کی طرح پنجرے میں بند ہوں’، سابق وزیر اعظم عمران خان

راولپنڈی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) سابق وزیر اعظم عمران خان نے دعوی کیا کہ انہیں ایک ‘دہشت گرد کی طرح جیل میں قید رکھا گیا ہے’ اور ‘بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم’ رکھا جا رہا ہے۔ تاہم پاکستان کی حکومت نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان نے برطانوی اخبار ‘دی سنڈے ٹائمز’ کے ساتھ ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ جیل میں انہیں ایک ”دہشت گرد کی طرح پنجرے میں بند” کر کے رکھا گیا ہے اور ایک قیدی کے جو، ”بنیادی اور انسانی حقوق ہیں، وہ بھی میسر” نہیں ہیں۔

لیکن پاکستان کی حکومت نے اتوار کے روز ان کے اس دعوے پر جوابی حملہ کیا اور کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ”شاہوں جیسے سلوک” سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

سنڈے ٹائمز کی رپورٹ کیا کہتی ہے؟

‘دی سنڈے ٹائمز’ میں شائع ہونے والے ایک ”انٹرویو” میں برطانوی صحافی کرسٹینا لیمب نے لکھا کہ مسٹر خان نے دعویٰ کیا کہ وہ قید تنہائی میں ہیں جہاں چلنے پھرنے کے لیے بمشکل کوئی جگہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ وہ انٹیلیجنس ایجنسیوں کی مسلسل نگرانی میں ہیں۔

تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جیل میں رہتے ہوئے عمران خان سے یہ انٹرویو کیسے لیا گیا، کیونکہ جیل میں سابق وزیر اعظم تک رسائی پر سختی سے کنٹرول ہے اور صرف ان کی قانونی ٹیم اور قریبی خاندان کے افراد ہی ان سے مل سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو بھی اپنی پارٹی کے رہنما سے ملاقات میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

سنڈے ٹائمز کا کہنا ہے کہ چونکہ مسٹر خان کو پنسل اور کاغذ تک رسائی کی اجازت نہیں ہے، اس لیے اس نے یہ انٹرویو ان کے وکلاء کے ذریعے حاصل کیا۔

عمران نے خان نے کیا کہا؟

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے اپنی قید کو، تنگ جگہ میں رکھنے اور مسلسل نگرانی کو، قید تنہائی قرار دیا۔ انہوں نے کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں ملنے سمیت پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جیل میں، ”بنیادی حقوق سے انکار پر افسوس کا اظہار” کیا۔

انہوں نے سنڈے ٹائمز کو بتایا، ”میں سات فٹ بائی 8 فٹ ڈیتھ سیل (موت کی سزا پانے والوں کا عقوبت خانہ) میں قید ہوں، جو عام طور پر دہشت گردوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ان کا کسی سے کوئی رابطہ نہ ہو سکے۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ قید تنہائی ہے جس میں نقل و حرکت کے لیے بمشکل کوئی جگہ ہے۔ میں ایجنسیوں کی مسلسل نگرانی میں ہوں، 24/7 ریکارڈنگ کی جاتی ہے اور ملاقات سے محروم رکھنے جیسے قیدیوں کے بنیادی حقوق سمیت مجھے انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ”انتخابی نتائج اور ووٹروں کا ٹرن آؤٹ کسی نرم انقلاب سے کم نہیں تھا جو مارشل لاء کے ماحول میں رونما ہوا تھا۔ لوگوں نے مجھے اس لیے ووٹ دیا کیونکہ وہ پاکستان کو جس طرح چلایا جا رہا ہے، اس موجودہ نظام سے تنگ آ چکے ہیں۔”

ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ کھیل مجھے اور میری پارٹی کو توڑنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہ اس میں کچھ کامیابی ملی ہے اور نہ ہی ملے گی۔”

71 سالہ سابق وزیر اعظم توشہ خانہ ریفرنس، سائفر کیس اور عدت کیس سمیت تین مقدمات میں قصوروار ٹھہرائے جانے کے بعد سے تقریباً ایک سال سے بھی زیادہ مدت سے اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

انٹرویو میں عمران خان نے اس بات پر اصرار کرتے ہوئے کہ وہ واپس آجائیں گے کہا کہ جیل میں وہ اپنا زیادہ تر وقت مستقبل کی منصوبہ بندی میں گزارتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ”پنجرے میں ہونے کے باوجود، پورا ملک میری طرف امید اور برداشت کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ سب سے اہم بات، میری دعائیں مجھے ثابت قدم رکھتی ہیں، خدا پر میرا عقیدہ مجھے یقین دلاتا ہے کہ انصاف ظلم پر غالب آئے گا۔”

حکومت کا رد عمل

سنڈے ٹائمز میں جن الزامات اور دعوؤں کا ذکر کیا گیا ہے، اس جواب دیتے ہوئے وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ محترمہ لیمب سے غلطی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا، ”یہ سزا یافتہ شخص صدارتی سوٹ میں رہتا ہے۔ ان کے پاس ورزش کے لیے ایک سائیکل، چہل قدمی کے لیے گیلری اور ایک کچن بھی ہے۔، جو وہ دن میں کھانا چاہیں، اس کے لیے انہیں ایک شاندار مینو دیا جاتا ہے۔”

وزیر نے کہا کہ مسٹر خان ہر ہفتے اپنے وکلاء، دوستوں، خاندان اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ اس ‘صدارتی سوٹ’ میں تین ملاقاتیں کرتے ہیں، جو ان کے لیے بنایا گیا ہے۔

وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اس کہانی کو غیر ملکی برادری کو بے وقوف بنانے کا ایک آلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ”ہم نے کبھی سیاسی انتقام پر یقین نہیں کیا اور نہ ہی ہم نے کبھی ایسا کیا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ جب عمران خان اقتدار میں تھے، تو انہوں نے بہت سے لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور رانا ثناء اللہ جیسے مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو بھی ”تشدد” کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا، ”وہ کھلے عام کہتا تھا کہ میں جیل میں ان کو کوئی دوا نہیں پہنچنے دوں گا۔ میں انہیں گھر کا کھانا نہیں کھانے دوں گا اور نہ ہی لوگوں سے ملنے دوں گا۔”

مسٹر تارڑ نے دعویٰ کیا کہ وہ حلف اٹھا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ حکومت نے کبھی بھی ان کے ساتھ دوسرے قیدیوں سے مختلف سلوک کرنے کی کوئی ہدایت نہیں دی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں