پاکستان: مردم شماری رپورٹ جاری؛ اقلیتوں کی آبادی میں اضافہ، احمدیوں کی تعداد میں کمی

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے ادارہ برائے شماریات نے ساتویں مردم شماری کی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق مجموعی طور پر اقلیتوں کی آبادی میں تو اضافہ ہوا ہے، تاہم احمدیوں کی آبادی میں کمی ہوئی ہے۔

پاکستان میں 2017 میں ہونے والی مردم شماری کے مقابلے میں 2023 کی مردم شماری میں اقلیتوں کی آبادی میں ان چھ برسوں کے دوران 14 لاکھ 49 ہزار 472 کا اضافہ ہوا ہے۔

سال 2017 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں اقلیتوں کی کل آبادی 73 لاکھ 21 ہزار 908 تھی جو چھ برس بعد 2023 میں بڑھ کر 87 لاکھ 71 ہزار 380 ہو گئی ہے۔

اس طرح 2023 کی مردم شماری کی رپورٹ میں پاکستان کی مجموعی آبادی میں 96.35 فی صد مسلم اور مجموعی آبادی میں اقلیتی آبادی 3.65 فی صد بتائی گئی ہے۔

کس صوبے میں کتنی اقلیتی آبادی مقیم ہے؟

سن 2023 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ اقلیتی آبادی سندھ موجود ہے۔ سب سے زیادہ ہندو، شیڈول کاسٹ، پارسی اور سکھ اسی صوبے میں بستے ہیں۔

مردم شماری کے مطابق عیسائی اور احمدیوں کی سب سے آبادی پنجاب میں ہے۔

سندھ کی کل آبادی پانچ کروڑ 56 لاکھ 38 ہزار 409 میں مسلم آبادی 90.09 فی صد ہے جب کہ اقلیتی آبادی 9.91 فی صد ہے۔ سندھ میں بسنے والی اقلیتوں کی مجموعی تعداد 55 لاکھ 11 ہزار 981 ہے۔

سندھ کی کل آبادی میں 6.43 فی صد ہندو، 2.38 فی صد شیڈول کاسٹ، 0.98 فی صد عیسائی، 0.03 فیصد احمدی اور 0.08 فی صد دیگر اقلیتیں ہیں۔

سندھ میں ایک ڈسٹرکٹ عمرکوٹ واحد ایسا ضلع ہے جس میں اقلیتی آبادی مسلم آبادی سے زیادہ ہے۔

ضلع عمر کوٹ کی مجموعی آبادی 11 لاکھ 58 ہزار ہے جس میں مسلم آبادی پانچ لاکھ 19 ہزار جب کہ اقلیتی آبادی چھ لاکھ 39 ہزار بتائی گئی ہے۔

اس ضلع میں سب سے زیادہ ہندو پانچ لاکھ دو ہزار اور شیڈول کاسٹ ایک لاکھ 31 ہزار بستے ہیں جب کہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کی مجموعی آبادی میں اقلیتی آبادی 45.78 فی صد بتائی گئی ہے۔

سندھ کے ضلع میرپورخاص میں سات لاکھ، سانگھڑ میں ساڑھے پانچ لاکھ، بدین میں ساڑھے چار لاکھ ، ٹنڈوالہیار تین لاکھ 40 ہزار، حیدرآباد میں سوا دو لاکھ ،گھوٹکی، کورنگی میں سوا سوا لاکھ سے زائد جب کے کراچی ایسٹ، کراچی ویسٹ، مٹیاری، ٹنڈو محمدخان میں ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ سے زائد اقلیتی آبادی مقیم ہے۔

پنجاب میں دو فیصد اقلیتیں آباد

ملک میں سب سے بڑی آبادی والے صوبے پنجاب کی مجموعی آبادی میں مسلم آبادی 97.75 فی صد اور اقلیتیں مجموعی آبادی کا 2.25 فی صد ہیں۔

پنجاب کی مجموعی آبادی 12 کروڑ 73 لاکھ میں اقلیتوں کی مجموعی آبادی 28 لاکھ 70 ہزار 408 ہے۔

اس طرح خیبر پختونخوا کی مجموعی آبادی میں مسلم آبادی 99.62 فی صد اور اقلیتی آبادی صرف 0.38 فی صد ہے۔

خیبر پختونخوا میں بسنے والی اقلیتوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 55 ہزار بتائی گئی ہے۔

بلوچستان کی مجموعی آبادی میں مسلم آبادی 99.09 فی صد اور اقلیتی آبادی صرف 0.91 فی صد ہے۔

بلوچستان میں بسنے والی اقلیتی افراد کی تعداد ایک لاکھ 32 ہزار ہے۔

دارالحکومت میں اقلیتی آبادی

اسلام آباد کی مجموعی آبادی میں مسلم آبادی 95.55 فی صد جب کہ اقلیتی آبادی 4.45 فی صد بتائی گئی ہے۔

اسلام آباد میں بسنے والی اقلیتوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔

سال 2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24 کروڑ چار لاکھ 58 ہزار 89 ہے جس میں مسلم آبادی 23 کروڑ 16 لاکھ 86 ہزار 709 ہے۔

اس طرح 2023 مردم شماری کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر اقلیتی آبادی کی تعداد 87 لاکھ 71 ہزار 380 ہے جس میں 44 لاکھ 93 ہزار 770 مرد اور 42 لاکھ 76 ہزار 362 خواتین شامل ہیں جب کہ 1248 ٹرانس جینڈر بھی ہیں۔

کس اقلیت کے کتنے افراد ہیں

پاکستان بھر میں بسنے والی اقلیتوں میں سب سے زیادہ 38 لاکھ 67 ہزار 729 ہندو ہیں۔

دوسرے نمبر پر 33 لاکھ 788 عیسائی، تیسرے نمبر پر 13 لاکھ 49 ہزار 487 شیڈول کاسٹ جب کہ ایک لاکھ 62 ہزار 684 احمدیوں موجود ہیں۔

سن 2017 کی مردم شماری میں سکھوں، پارسیوں کی علیحدہ تعداد نہیں بتائی گئی تھی مگر 2023 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں 15998 سکھ، 2348 پارسی اور 72 ہزار 346 دوسری اقلیتیں موجود ہیں۔

احمدیوں کی کتنی آبادی کم ہوئی؟

پاکستان میں 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 91 ہزار 737 تھی جب کہ چھ برس بعد ہونے والی 2023 کی مردم شماری میں احمدیوں کی آبادی ایک لاکھ 62 ہزار 684 ہو گئی ہے۔

پنجاب

پنجاب میں احمدیوں کی آبادی میں 17509 کی کمی ہوئی ہے۔

اس طرح پنجاب میں بسنے والے احمدیوں کی 2017 کی مردم شماری میں بتائی گئی تعداد ایک لاکھ 58 ہزار 21 سے کم ہو کر ایک لاکھ 40 ہزار 512 ہو گئی ہے۔

سندھ

سندھ میں 2017 کی مردم شماری کے مقابلے میں احمدیوں کی تعداد میں 3395 کی کمی کے بعد 2023 میں احمدیوں کی کل آبادی 18266 بتائی گئی ہے۔

بلوچستان

بلوچستان میں احمدیوں کی آبادی میں 1556 کی کمی واقع ہوئی ہے۔

بلوچستان میں احمدیوں کی کل تعداد 557 بتائی گئی ہے۔

خیبر پختونخوا

خیبر پختونخوا میں احمدیوں کی آبادی میں 5377 کی کمی ہونے کے بعد 951 تک آ گئی ہے۔

دارالحکومت اسلام آباد

اسلام آباد میں احمدیوں کی آبادی میں 340 کی کمی ہوئی ہے۔

اس کمی کے بعد باقی احمدی آبادی کی تعداد 2398 ہے۔

عیسائی برادری کی آبادی میں کتنا اضافہ ہوا؟

سال 2023 کی مردم شماری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں عیسائی کمیونٹی کی آبادی میں 2017 کے مقابلے میں 2023 کی مردم شماری میں 6 لاکھ 58 ہزار 740 کا اضافہ ہوا ہے جس میں پنجاب میں 395861، سندھ میں 138667، خیبر پختونخوا میں 88605 ، بلوچستان میں 28912 اور اسلام آباد کی آبادی میں 10434 عیسائی افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

اضافے کے بعد ملک بھر میں عیسائی آبادی 33 لاکھ 788 ہو گئی ہے۔

پنجاب میں بسنے والی کرسچن آبادی کی تعداد 24 لاکھ 58 ہزار 924، کے پی کے میں ایک لاکھ 34 ہزار 894، سندھ میں 546968، بلوچستان میں 62731 اور اسلام آباد میں رہنے والی عیسائی کمیونٹی کی تعداد 97281 ہے۔

ہندو برادری کی آبادی میں کتنا اضافہ ہوا؟

دو ہزار تئیس کی مردم شماری کے مطابق سال 2017 کے مقابلے میں 2023 میں ہندو آبادی میں دو لاکھ 72 ہزار 473 کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ہندو آبادی بڑھ کر 38 لاکھ 67 ہزار 729 تک پہنچ گئی ہے جس میں 20 لاکھ 751 مرد اور 18 لاکھ 86 ہزار 797 عورتیں شامل ہیں۔

گذشتہ چھ برس میں کے پی کے میں ہندو آبادی میں صرف 243، صوبۂ پنجاب میں 30308، سندھ میں 230424، صوبۂ بلوچستان میں 11363 اور اسلام آباد میں ہندو آبادی میں 277 افراد کا اضافہ ہوا ہے۔

اضافے کے بعد صوبۂ کے پی کے میں ہندو آبادی بڑھ کر 5473، پنجاب میں 228559، سندھ میں 35 لاکھ 75 ہزار 848، بلوچستان میں 57010 اور اسلام آباد میں ہندو برادری کے افراد کی تعداد 839 ہو گئی ہے۔

شیڈول کاسٹ کی آبادی میں کتنا اضافہ ہوا؟

مردم شماری 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2017 کی مردم شماری کے مقابلے میں 2023 کی مردم شماری میں شیڈول کاسٹ کی آبادی میں چار لاکھ 99 ہزار 873 کا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد پاکستان بھر میں شیڈول کاسٹ کی آبادی بڑھ کر 13 لاکھ 49 ہزار 487 ہو گئی ہے جس میں چھ لاکھ 96 ہزار چار مرد اور چھ لاکھ 53 ہزار 449 خواتین شامل ہیں۔

چھ برس بعد ہونے والی مردم شماری میں صوبۂ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں شیڈول کاسٹ کی آبادی میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی ہے۔

کمی کے بعد کے پی کے میں شیڈول کاسٹ افراد کی تعداد 834 سے کم ہو کر 629 ہو گئی ہے۔

بلوچستان میں 2017 میں بتائی گئی 3506 شیڈول کاسٹ کی آبادی کم ہو کر 2097 اور اسلام آباد میں 175 سے کم ہو کر شیڈول کاسٹ افراد کی تعداد 45 رہ گئی ہے۔

پنجاب میں شیڈول کاسٹ کی آبادی میں 7767، سندھ میں 493997 کا اضافہ ہوا ہے۔

صوبۂ پنجاب میں شیڈول کاسٹ کی آبادی 21157 اور سندھ میں 1325559 ہو گئی ہے۔

سکھوں اور پارسیوں کی آبادی کتنی ہے؟

سال 2023 کی مردم شماری کے مطابق ملک بھر میں سکھوں کی تعداد 15998 ہے جس میں 8510 مرد اور 7457 خواتین شامل ہیں۔

صوبۂ خیبر پختونخوا میں 4050 ، پنجاب میں 5649، سندھ میں 5182، بلوچستان میں 1057 اور اسلام آباد میں رہنے والے سکھوں کی تعداد 60 ہے۔

ملک بھر میں بسنے والے پارسیوں کی تعداد 2348 ہے جس میں 1218 مرد اور 1126 خواتین شامل ہیں۔

کے پی کے میں پارسی 36 ،پنجاب میں 358، سندھ میں 1763، بلوچستان میں 181 اور اسلام آباد میں 10 پارسی افراد رہتے ہیں۔

خواجہ سراؤں کی تعداد

سال 2023 کی مردم شماری کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کے پاکستان میں خواجہ سراؤں کی مجموعی آبادی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

سال 2017 کی مردم شماری میں خواجہ سراؤں کی تعداد 21774 تھی جو 2023 کی مردم شماری میں کم ہو کر 20 ہزار 331 ہو گئی ہے جن میں 19083 خواجہ سرا مسلم جب کہ 1248 خواجہ سرا اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں میں 464 عیسائی، 181 ہندو، 17 احمدی، 34 شیڈول کاسٹ، 31 سکھ، چار پارسی اور 517 خواجہ سرا دیگر اقلیتوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔

سابق اقلیتی رکن قومی اسمبلی لال چند مالھی کا کہنا ہے کہ جب پاکستان بنا تو 1947 میں پاکستان کی مجموعی آبادی میں اقلیتی آبادی 23 فیصد تھی جو اب کم ہو کر مجموعی آبادی کا 3 فیصد ہو گئی ہے۔

وائس آف آمریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق رکن قومی اسمبلی لعل مالھی کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاسی، معاشی اور عدم تحفظ کی صورتِ حال کے باعث اقلیتیں پاکستان سے باہر منتقل ہوتی رہی ہیں۔

ان کے بقول آئین ہمیں برابر کا حق دیتا ہے مگر 76 برس میں قومی اسمبلی ہندو میرج بل منظور کر سکی ہے جس کے بھی بائے لاز نہیں بن سکے ہیں۔ محمد علی جناح نے اقلیتوں سے مذہبی آزادی کی وعدہ کیا تھا مگر ہندو لڑکیوں کی زبردستی مذہب تبدیلی سے لے کر دیگر مسائل درپیش ہیں۔

ہندو کونسل پاکستان کے رہنما سابق رکن قومی اسمبلی رمیش کمار وکوانی کا کہنا تھا کے انہوں نے اب تک مردم شماری رپورٹ کا تقابلی جائزہ نہیں لیا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی نوید عامر جیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مردم شماری کا عمل متنازع رہا ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کے خاص طور پرعیسائی اور ہندو کمیونٹی کی آبادی درست شمار نہیں کی جاتی۔

ان کے بقول جو مردم شماری میں تعداد بتائی گئی ہے، اقلیتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ وہ اس طرح کے اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں احمدیوں کی آبادی میں کمی کا ایک سبب ان پر ہونے والے حملے اور عدم تحفظ کی صورتِ حال ہو سکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں