برطانوی مبلغ انجم چوہدری پر شدت پسند تنظیم کی ’سربراہی‘ کا الزام کیسے ثابت ہوا؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) لندن کی ایک عدالت نے انتہا پسند مبلغ انجم چوہدری کو ایک دہشتگرد تنظیم کی سربراہی کرنے کا مرتک پایا ہے۔

انجم چوہدری اپنی کالعدم تنظیم کے بارے میں طویل عرصے سے جاری بین الاقوامی خفیہ تحقیقات کے بعد پکڑے گئے ہیں جس میں برطانوی اداروں کے علاوہ امریکی اور کینیڈین افسران نے بھی حصہ لیا تھا۔

انجم چوہدری کو منگل کے روز شدت پسند گروپ المہاجرون (اے ایل ایم) میں ’نگران‘ کا کردار ادا کرنے کے جرم میں سزا سنائے جانے کے بعد عمر قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان کے 29 سالہ کینیڈین پیروکار خالد حسین بھی کالعدم گروپ کے رکن ہونے کے مجرم قرار پائے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ تقریباً 25 سال تک انجم چوہدری برطانیہ میں شدت پسند نظریات کو فروغ دیتے آئے ہیں۔

1990 کی دہائی کے آخر میں انجم چوہدری نے شام سے تعلق رکھنے والے عالم عمر بکری محمد کی شاگردی اختیار کی جنھوں نے ’المہاجرون‘ کی بنیاد رکھی تھی۔

انجم چوہدری اس گروپ کے دوسرے اہم کمانڈر بن گئے تھے تاہم 2010 تک برطانوی حکومت نے اس تنظیم کے ارکان کے دہشتگرد حملوں سے روابط ثابت ہونے کے الزام میں اس گروپ اور اس کی ذیلی تنظیموں پر پابندی لگا دی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران بتایا گیا کہ سنہ 2014 میں عمر بکری محمد کو لبنان میں جیل بھیجے جانے کے بعد انجم چودھری نے تنظیم کے ’نگران‘ کا کردار سنبھالا اور ساتھ ہی ’مذہب کا ایک بگڑا ہوا نظریہ‘ پھیلانے کا کام جاری رکھا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب شدت پسند تنظیم نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے شام اور عراق پر دھاوا بول دیا تھا۔ دو سال بعد انجم چوہدری کو اپنے ساتھیوں کو نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی حمایت پر اکسانے سزا ہو گئی۔

انھیں 2018 میں رہا کر دیا گیا تاہم ان پر 2021 تک عوامی اجتماعات میں بات کرنے پر پابندی تھی۔

انجم چودھری پر 2014 سے لے کر جولائی 2023 کے آخر تک المہاجرون کی قیادت کا الزام لگایا گیا لیکن اس مقدمے کا تعلق 2021 میں ان کی سزا کی مدت ختم ہونے کے بعد کے واقعات سے ہے۔

وکیلِ استغاثہ ٹام لٹل کے سی نے عدالت کو بتایا کہ انجم چوہدری نے رہا ہونے کے بعد نیویارک میں اپنے حامیوں کو نظریاتی لیکچر دینا شروع کیے۔ چوہدری کے یہ پیروکار خود کو ’اسلامک تھنکرز سوسائٹی‘ کہلاتے تھے۔

لٹل کے سی کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم المہاجرون کا ہی دوسرا نام تھا۔ ان کے مطابق اس تنظیم کی میٹنگز میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خفیہ افسران نے بھی شرکت کی تھی۔

کینیڈا میں ایک پیٹرول سٹیشن پر بطور اٹینڈنٹ کام کرنے والے 29 سالہ خالد حسین بھی اس تنظیم کا حصہ تھے جو خود کو ابو عائشہ الکنادی کہتے تھے۔

خالد حسین پر الزام ہے کہ وہ آن لائن میٹنگز کے انعقاد میں انجم چوہدری کی مدد کرتے تھے۔ وہ اس وقت تک رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کے تفتیش کاروں کی نظر میں آچکے تھے۔

جون 2021 تک کینیڈین پولیس اور نیویارک پولیس اس معاملے میں انٹیلیجنس معلومات کے حوالے سے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے تھے۔ چند مہینوں کے اندر میٹروپولیٹن پولیس نے بھی ان کے ساتھ مل کر کام شروع کر دیا۔ تب تک انجم چوہدری اور حسین مزید دلیر ہو چکے تھے۔

’اسلامک تھنکرز سوسائٹی دراصل المہاجرون شمالی امریکہ ہے‘

اس دوران یہ دونوں اسلام پسند قیدیوں کی رہائی کے لیے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھرپور انداز میں مہم چلاتے۔

اس دوران انجم چودھری نے محتاط رہنے کی کوشش کی کہ کسی بھی موقع پر وہ ذاتی حیثیت میں تشدد کی کسی صورت کی وکالت نہ کریں۔

دوسری طرف حسین نے بھی اپنے اقدامات چھپانے کی کوشش کی لیکن وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ امریکی اور کینیڈین خفیہ افسران ان کی میٹنگز شرکت میں کر کے ان کے خلاف ثبوت جمع کر رہے تھے۔

حسین نے ان میں سے ایک افسر کو بتایا کہ ’اسلامک تھنکرز سوسائٹی دراصل المہاجرون شمالی امریکہ ہے۔‘

انجم چوہدری کی اہلیہ کے خدشات

پچھلے سال جولائی میں جب خالد حسین برطانیہ پہنچے تو انھیں ہیتھرو ایئرپورٹ پر گرفتار کر لیا گیا۔

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ خالد حسین نے پولیس کو بتایا کہ وہ انگریزی لٹریچر کے طالب علم ہیں اور شیکسپیئر کی جائے پیدائش جانا چاہتے ہیں لیکن تفتیش کار جانتے تھے کہ خالد حسین دراصل اپنے آئیڈیل انجم چودھری سے ملنے آئے تھے۔

حسین نے نادانستہ طور پر ایک خفیہ افسر کو بتایا تھا کہ ’زیادہ تر لوگ نہیں جانتے کہ وہ المہاجرون کا حصہ ہیں‘۔ اس کے علاوہ تفتیش کاروں کے پاس بھی انجم چوہدری کے پیغامات تھے۔

انجم چوہدری نے خالد حسین کو سیاحتی مقامات پر جانے کا مشورہ دیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ ’آپ وول وچ سے زیادہ دور نہیں۔۔۔ مشہور لی رگبی ایشو۔‘

دراصل انجم چوہدری 2013 میں ہونے والے برطانوی سپاہی لی رگبی کے قتل کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔ رگبی کو المہاجرون کے دو حامیوں نے جنوبی لندن کی عدالت سے صرف چند میل کے فاصلے پر ہلاک کر دیا تھا۔

برطانوی تفتیش کاروں نے انجم چوہدری اور ان کی اہلیہ کے درمیان ہونے والی گفتگو بھی خفیہ طور پر سنی۔

انجم چوہدری کی اہلیہ امریکہ میں ان کے آن لائن لیکچرز کو لے کر فکر مند تھیں تاہم انجم چودھری کا اصرار تھا کہ وہ ان لیکچرز کے دوران ’کچھ بھی غلط بات نہیں کرتے۔‘

جب انجم چوہدری کی اہلیہ نے انھیں خبردار کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایسے لوگوں سے بات کر رہے ہیں جنھیں وہ ذاتی طور پر نہیں جانتے تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ صرف ان افراد کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں۔

ان کی اہلیہ کے خدشات درست تھے۔ اکثر اوقات چودھری صرف پانچ لوگوں کو لیکچر دیتے تھے اور ان میں سے دو خفیہ افسر ہوتے تھے۔

روپ بدلتی انتہا پسند تنظیم

کئی سال تک المہاجرون مختلف ناموں سے کام کرتی رہی۔ تنظیم کے نام بدلتے رہے لیکن اس سب کے دوران ایک شخصیت مستقل تھی۔

میٹروپولیٹن پولیس میں انسدادِ دہشتگردی کمانڈ کے سربراہ کمانڈر ڈومینک مرفی کہتے ہیں کہ ’جب (انجم چوہدری) جیل سے رہا ہوئے اور 2021 میں ان پر لگی تمام پابندیاں اٹھالی گئیں تب بھی ہم نے تفتیش بند نہیں کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ تو واضح تھا کہ انجم چوہدری کا اثرورسوخ سمندر پار تک پھیلا ہوا تھا۔ ’اب ہمیں اس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ انجم چودھری کے پیچھے کون آ سکتا ہے۔‘

ایک سینیئر برطانوی سکیورٹی اہلکار نے کہا کہ ’پچھلے کچھ سال میں انسداد دہشت گردی کی کمیونٹی کے اہم مقاصد میں سے ایک المہاجرون کی جانب سے بنیاد پرستی کے فروغ کو روکنا تھا۔‘

’یہ تحقیقات دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ملکی اور بین الاقوامی شراکت داری کی ایک بہترین مثال ہے۔ ایک ایسا نقطہ نظر جو آج کے آن لائن اور بین الاقوامی سطح پر منسلک خطرے کو روکنے کے لیے بہت ضروری ہے۔‘

نیویارک پولیس ڈیپارٹمنٹ کی ڈپٹی کمشنر ربیکا وینر کا کہنا ہے کہ افسران نے اسلامک تھنکرز سوسائٹی کی نگرانی میں 20 سال لگائے جو انتہا پسندی پھیلانے کا گڑھ تھا۔

’لوگ میری طرف دیکھتے ہیں اور ان کے ذہن میں صرف المہاجرون آتا ہے‘

کٹہرے میں کھڑے ہو کر انجم چودھری نے اپنی اہمیت کو کم کر کے دکھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنا موازنہ ایک ایسے فٹبالر سے کیا جسے اپنے کیریئر کے مخصوص حصے کے لیے یاد رکھا جاتا ہے۔

’اگر آپ کسی سے کیون کیگن کے بارے میں پوچھیں تو لوگ جواب دیں گے کہ وہ لیورپول کے لیے فٹ بال کھیلتے ہیں۔ لوگ میری طرف دیکھتے ہیں اور ان کے ذہن میں صرف المہاجرون آتا ہے۔‘

لیکن استغاثہ نے عدالت میں ثابت کیا کہ المہاجرون کہیں دھویں میں غائب نہیں ہو گئے تھے۔ استغاثہ نے بتایا کہ 2022 میں انجم چوہدری نے حکام کے ساتھ اپنی لڑائی کا ذکر فخریہ انداز میں آن لائن بات چیت کے دوران کیا تھا۔

انھوں نے پیروکاروں سے کہا کہ ’جب مجھے جیل بھیجا گیا تو انھوں نے میرے اور میرے بھائیوں کے لیے علیحدگی کا مرکز کھولا کیونکہ وہ ہماری تبلیغ کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔‘

’انھوں نے مجھ سے کہا کہ آپ برطانیہ میں انتہا پسندوں میں پہلے نمبر پر ہیں۔ یہ میرے لیے اعزاز کا باعث ہے۔‘

ایک اور ریکارڈنگ میں امریکی نشریاتی ادارے سی این این (CNN) کو دیے گئے ایک انٹرویو سے پہلے انجم چوہدری کو جب ساؤنڈ چیک کے لیے کہا گیا تو انھوں نے ’1, 2, 3, 4, 5…9/11, 7/7, 3/11، کہا۔‘

اس میں سے آخری تین نمبرز 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں، 7 جولائی 2005 کو لندن اور 11 مارچ 2004 کو میڈرڈ میں ہونے والے حملوں کی طرف اشارہ تھے۔

لیکن انجم چودھری پر تفتیشی دباؤ تھا اور انھیں یہ اچھے سے معلوم تھا۔

مارچ 2023 میں جب ان کے سرپرست عمر بکری محمد کو لبنان کی جیل سے رہا ہوئے تو اس کے اگلے ہی دن انجم چودھری نے ان سے مشورہ طلب کیا۔

انھوں نے عمر بکری کو بتایا کہ برطانیہ میں کام کرنا بہت مشکل ہوگیا ہے اور یہاں بھرتی کے لیے لوگوں کو راغب کرنا ’تقریباً ناممکن‘ ہو گیا ہے۔

’میں ٹیلی گرام پر جو بھی چینل بناتا ہوں وہ اس پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ میں جو بھی کرتا ہوں شیخ، وہ اس پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ سچ کہوں تو میں سب سے زیادہ پابندیوں والا شخص ہوں۔‘

انھوں نے اپنے ان بھائیوں کو یاد کیا جو شام یا عراق میں مارے گئے تھے۔

دوسری جانب انجم چوہدری کا مقدر واپس جیل کی کوٹھری میں جانا ہے۔ انھیں اور خالد حسین کو 30 جولائی کو سزا سنائی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں