کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین اسد اقبال بٹ کو کچھ دیر حراست میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔
جمعرات کو پاکستان میں آزادانہ حیثیت میں کام کرنے والے انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کے چیئرمین اسد بٹ کو کراچی پولیس پوچھ گچھ کے لیے اپنی حراست میں گلبرگ تھانے لے کر گئی۔
ایس ایس پی کراچی وسطی ذیشان صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ اسد بٹ کو حراست میں نہیں لیا گیا بلکہ انھیں ڈی ایس پی کے دفتر میں پوچھ گچھ کے لیے بلایا گیا ہے۔ ایس ایس پی کے مطابق بلوچستان اور ریلیوں میں شرکت کے حوالے سے کچھ انٹلی جنس رپورٹس اس بارے میں ان سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے۔
اسد بٹ نے بی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان سے بلوچ مسنگ پرسنز پر سولات کیے گئے اور ان سے دور رہنے کا مشورہ دیا گیا۔ ان کے مطابق انھوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اس مسئلے سے دور نہیں رہ سکتے۔
ان کے مطابق ان سے پوچھا گیا کہ آپ کوئٹہ گئے تھے تو انھوں نے بتایا کہ گذشتہ آٹھ سالوں میں وہ وہاں نہیں جا سکے۔ اسد بٹ کے مطابق اب پولیس کہتی ہے کہ ’وہ غلطی ہوگئی معذرت۔‘ پولیس نے پوچھ گچھ کے بعد اسد بٹ کو رہا کر دیا۔
ایچ آر سی پی پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر ریاستی پالیسیوں پر سوالات اٹھاتا آ رہا ہے۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی تاریخ
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنٹسی انٹرنیشنل کے مطابق جبری گمشدگی کا شکار وہ لوگ ہیں جو عملی طور پر غائب ہو چکے ہیں۔ وہ اس وقت لاپتہ ہو جاتے ہیں جب ریاستی اہلکار انھیں کسی گلی یا گھروں سے پکڑتے ہیں اور پھر یہ بتانے سے انکار کرتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں۔
ایمنٹسی کے مطابق بعض اوقات مسلح غیر ریاستی عناصر، جیسے مسلح اپوزیشن گروپوں کی طرف سے گمشدگی کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے اور یہ بین الاقوامی قانون کے تحت جرم ہے۔
پاکستان میں ’جبری گمشدگیوں‘ کے مسئلے نے سنہ 2000 میں اس وقت زور پکڑا جب افغانستان پر امریکہ کے حملے کے بعد مذہبی اور مسلکی جماعتوں کے کارکنوں اور ہمدردوں کی گمشدگیاں ہونے لگیں۔
بلوچستان میں بزرگ قوم پرست رہنما نواب اکبر بگٹی کی فوجی آپریشن میں ہلاکت کے بعد اس میں تیزی آئی۔
سپریم کورٹ سے لے کر چاروں صوبوں میں موجود ہائی کورٹس میں لاپتہ افراد کی جبری گمشدگیوں کے خلاف درخواستیں دائر ہیں۔ ہر درخواست پر وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کو نوٹس ہوتے ہیں جن میں اکثریت کے جوابات یہ ہی آتے ہیں کہ متعلقہ شخص ان کی تحویل میں نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہی صرف 50 کے قریب بلوچ طلبہ کی گمشدگی سے متعلق کیس زیر سماعت ہے، جہاں گذشتہ سماعت پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے عدالت کو بتایا کہ 22 بلوچ طلبہ کو ڈھونڈ لیا گیا ہے لیکن 28 تاحال لاپتہ ہیں اور یہ کہ تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔
سنہ 2011 میں جبری گمشدگیوں کا پتا لگانے کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
کمیشن چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں درخواستوں کی سماعت کر چکا ہے اور اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب لاپتہ افراد کے لواحقین نے کمیشن سے رجوع کیا۔
کمیشن چاروں صوبوں کے کئی شہروں میں درخواستوں کی سماعت کر چکا ہے اور اس کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1977 جبری طور پر لاپتہ افراد گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔