سلمان رشدی پر حملہ کرنے والے ملزم کے خلاف شدت پسند تنظیم حزب اللہ کی حمایت کا نیا الزام عائد

واشنگٹن (ڈیلی اردو/بی بی سی) نیویارک میں 2022 میں برطانوی مصنف سلمان رشدی پر قاتلانہ حملے میں ملوث ملزم کو اب ایک شدت پسند تنظیم کی حمایت کے الزام کا بھی سامنا ہے۔

بدھ کے روز عام کیے گئے فرد جرم کے مطابق ہادی مطر پر لبنان میں مقیم عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کو مدد فراہم کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

یہ الزامات مطر کی جانب سے استغاثہ کی اس پیشکش کو ٹھکرائے جانے کے چند ہفتوں بعد سامنے آئے ہیں جس کے تحت اگر وہ اقبالِ جرم کر لیتے تو ان کو ہونے والی سزا کا دورانیہ کم ہونے کے امکانات تھے۔

ہادی مطر پر الزام ہے کہ انھوں نے اگست 2022 میں نیویورک میں ایک تقریب کے دوران رشدی پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔

اس حملے کے لیے انھیں اقدامِ قتل اور حملہ کرنے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔ حملے کے نتیجے میں رشدی ایک آنکھ سے اندھے ہو گئے تھے۔

مطر کے وکیل ناتھینیئل بیرون نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے مؤکل خود پر لگے نئے الزامات کو رد کرتے ہیں اور اس کے خلاف درخواست دائرکرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا نے کہ، وہ اپنے مؤکل کے بھرپور دفاع کریں گے۔ مطر کے وکیل کا کہنا تھا ان کے مؤکل اپنے خلاف لگائے گئے تمام الزامات تردید کرتے ہیں۔

ہادی مطر حملے کے بعد سے بنا ضمانت کے امریکہ میں قید ہیں۔

خیال رہے کہ سنہ 1988 میں سلمان رشدی کا متنازع ناول ’سٹینک ورسز‘ (شیطانی آیات) شائع ہوا تھا جس پر مسلم دنیا میں انتہائی غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ بہت سے مسلمانوں نے اسے ’توہین مذہب‘ کے مترادف قرار دیا تھا۔

اس کتاب کی اشاعت کے ایک سال بعد ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا۔

گرفتاری کے بعد امریکی اخبار ’نیو یارک پوسٹ‘ کو دیے انٹرویو میں مطر نے بتایا تھا کہ انھوں نے سلمان رشدی کی متنازع کتاب ’سیٹنک ورسز‘ کے صرف دو صفحے پڑھ رکھے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سلمان رشدی ’وہ شخص ہیں جنھوں نے اسلام پر حملہ کیا۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں