کرم زمین کا تنازع فرقہ واریت میں تبدیل، 10 افراد ہلاک، 50 سے زائد زخمی

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے دو دیہات کے مختلف قبائل کے درمیان زمین کے تنازعے پر شروع ہونے والا تصادم تین دنوں میں آٹھ مختلف دیہات تک پھیل گیا ہے اور کل رات پاراچنار شہر میں بھی راکٹ گرے ہیں۔ ان تین دنوں میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

ادھر سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کا کہنا ہے کہ حالات بہت کشیدہ ہیں اور ان کی اطلاع کے مطابق اب تک نو افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں تین کا تعلق طوری قبیلے اور چھ کا تعلق بنگش اور منگل گروپ سے ہے۔ پاراچنار ہسپتال میں حکام نے کہا ہے کہ ان کی پاس ہلاکتوں کی تعداد چھ ہے۔

اس بارے میں ضلع کرم کے پولیس افسر محمد نثار نے بی بی سی کو بتایا کہ انتظامیہ اور قبائلی عمائدین اپنی طرف سے کوششیں کر رہے ہیں فائرنگ کا سلسلہ رک جاتا ہے لیکن پھر وقفے کے بعد یا شام کے بعد دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس اور مقامی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ حالات پر جلد سے جلد قابو پا لیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ زمین کا تنازع ہے جو بڑھ گیا ہے۔

ان جھڑپوں میں چھوٹے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز دیکھی جا رہی ہیں جن میں بھاری اسلحے کے فائر کیے جا رہے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر ان جھڑپوں کو روکنے کے لیے کوششیں جاری ہیں جس میں جرگہ عمائدین دونوں جانب فریقین سے رابطے کر رہے ہیں۔

کرم سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر ساجد حسین طوری نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ جھڑپیں تین روز سے جاری ہیں اور ابتدائی طور پر یہ زمین کے تنازع پر دو گروہوں میں شروع ہوا مگر پھر یہ لگ بھگ پورے ضلعے تک پھیل گیا ہے اور کل رات راکٹ پاڑہ چنار شہر میں بھی گرے ہیں۔ اب تک ان راکٹ سے نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں ۔

پولیس اور مقامی لوگوں کے مطابق ضلع کرم کے علاقہ بوشہرہ اور مالی خیل کے مابین زمین کے تنازع تین روز پہلے شروع ہوا اور دونوں جانب سے شدید فائرنگ کی گئی، جس میں خود کاربھاری ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔ اس کے بعد دیگر قریبی دیہات جیسے علاقہ بالش خیل، پیواڑ و تری منگل اور کنج علی زئی مقبل کے علاقوں میں بھی فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

ہلاکتیں اور زخمی

مقامی سطح پر لوگوں نے بتایا کہ جس طرح بھاری اور چھوٹے ہتھیاروں سے فائرنگ کی گئی ہے اس سے زیادہ نقصان ہو سکتا تھا۔ ان کے مطابق اب تک دور دراز علاقوں سے رابطے بھی نہیں ہو رہے۔ پاڑہ چنار ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر میر حسن جان کے مطابق ان کے ہسپتال میں تین دنوں میں چھ افراد ہلاک اور 44 زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں سے بیشتر کو طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ چھ زخمی اب بھی ہسپتال میں داخل ہیں جن کا علاج جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وسیع علاقہ ہے۔ اپر کرم سے زیادہ تر زخمی پاڑہ چنار میں ہسپتال لائے جاتے ہیں لیکن اس کے علاوہ مقامی ہسپتال اور بنیادی صحت مراکز ہیں جہاں زخمیوں کا لے جایا جاتا ہے۔

ادھر صدہ ہسپتال سے ڈاکٹر واجد نے بتایا کہ ان کے پاس گذشتہ دو دنوں میں چار زخمی لائے گئے تھے جن میں سے دو کو پشاور بھیج دیا گیا جبکہ باقی دو کو طبی امداد فراہم کر دی گئی تھی۔

زمین کا تنازع فرقہ واریت میں کیے بدلا؟

یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ کرم ضلع میں زمین، پانی، راستوں اور جنگل کی ملکیت کے تنازعات پر بار بار معمولی فائرنگ کے واقعات خونریز جھڑپوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور یہ جھڑپیں پھر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں بدل جاتے ہیں۔

گذشتہ ماہ ضلع کرم میں امن کے قیام کے لیے اہلسنت اوراہل تشیع نے علاقے میں خیر سگالی کے لیے اقدامات کیے تھے اور اہلسنت کی احتجاجی ریلی میں اہل تشیع نے پانی کی سبیلیں لگائی تھیں۔

تین روز پہلے زمین کا تنازع شروع ہوا اور یہ مختلف قبائل تک پھیل گیا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر قبائل ایک دوسرے قبیلے کا ساتھ دینے کے لیے دوسرے قبیلے کے لوگوں پر فائرنگ شروع کر دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوجاتے ہیں۔

ضلع کرم میں ان قبائل میں جغرافیے اور فرقے کی بنیاد پر تقسیم پائی جاتی ہے۔ اپر کرم میں تری مینگل سنی مسلمان ہیں جبکہ پیواڑ میں شیعہ مسلمان آباد ہیں۔ اسی طرح غوز گڑھی کا تعلق اہلسنت اور کونج علیزئی کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔ آگے چلتے ہیں تو بوشہرہ کا تعلق اہلسنت اور ملی خیل کا تعلق اہل تشیع سے بتایا جاتا ہے۔

لوئر کرم میں اگر دیکھیں تو یہاں مختلف قبائل ہیں جیسے گاؤں خار کلے اہلسنت اور گاؤں بلیش خیل کا تعلق اہل تشیع سے بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح لوئر کرم میں ہی صدہ اہلسنت اور گاؤں سگینہ کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔

مقامی صحافی علی افضل نے بتایا کہ ابھی جو تنازع شروع ہوا ہے یہ ملی خیلاور بوشہرہ قبائل کے درمیان شروع ہوا ہے اور یہ قبیلے دریائے کرم کے ساتھ آباد ہیں۔ یہ تنازع اگرچہ قبائل کے درمیان ہوتا ہے لیکن باقی علاقوں کے لوگ بھی اس میں قبیلے اور مسلک کی وجہ سے حصہ بن جاتے ہیں۔

امن کی کوششیں کتنی کارگر؟

مقامی انتظامیہ اور قبائلی عمائدین کی فائر بندی کے لیے کوششیں جاری ہیں اور آج بھی ایک گرینڈ جرگہ ہو رہا ہے جس کے بعد متحارب گروہوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ ادھر ضلع ہنگو اور ضلع اورکزئی سے قبائلی عمائدین پاڑہ چنار پہنچے ہیں۔

ساجد حسین طوری نے بتایا کہ گذشتہ روز ان جھڑپوں میں متحرک گروہوں سے رابطے کیے گئے تھے اور بڑی حد تک کامیابی ہو گئی تھی لیکن پھر ایک گروہ کی جانب سے فائرنگ ہوئی تو حالات پھر سے خراب ہوگئے۔ ایسی اطلاع بھی ہے کہ ایک جرگہ کے لوگ بھی فائرنگ کی زد میں آئے تھے لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت انتظامیہ ان حالات کو قابو میں لانے میں ناکام نظر آتی ہے اور اگر اب حالات کو قابو میں نہ کیا گیا تو اس زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔

ملک عطااللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ کرم میں حالات کشیدہ ہیں اور ایک عرصے سے قائم جرگہ ان حالات کو قابو پانے میں ناکام رہا ہے اور انتظامیہ ان حالات کو سلجھانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں یعنی قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا کے ساتھ انضمام سے پہلے تمام قبائلی اپنے ملک کے احکامات کے پابند ہوتے تھے اور اس طرح کے واقعات کو کنٹرول کرلیا جاتا تھا لیکن انضمام تو ہوگیا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ قبائلی علاقے کے لوگوں کو نہیں ہوا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں