کرم: پاراچنار میں فرقہ وارانہ فسادات میں 35 افراد ہلاک، 145 زخمی

پشاور (نمائندہ ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کُرم کے حکام کے مطابق دو گروہوں کے درمیان جھڑپوں میں کم از کم 30 افراد کی ہلاکت ہوئی ہے تاہم اب مقامی سطح پر سیز فائر پر عملدرآمد کے بعد صورتحال معمول پر ہے۔

پاڑہ چنار کے سرکاری ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر میر حسن کے مطابق پانچ روز میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 30 ہے جبکہ 150 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔

ادھر ضلع کرم کے ایک پولیس اہلکار نے بتایا ہے کہ قبائلی عمائدین اور مقامی لوگ کی مدد سے سیز فائر کروایا گیا ہے جس پر عملدرآمد جاری ہے۔

اس سے قبل کُرم کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد نثار نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی کو بتایا تھا کہ مقامی قبائل کے درمیان ضلع کے مختلف علاقوں میں پانچ روز سے جاری تصادم کے بعد آج جنگ بندی ہو گئی ہے اور اب سکیورٹی ادارے علاقوں میں قائم مورچوں کو خالی کروا رہے ہیں۔

محمد نثار کے مطابق یہ جھڑپیں ضلع کے دور دراز علاقوں میں جاری تھیں جہاں اگر کوئی زخمی ہوتا ہے تو اس کا علاج وہیں کر لیا جاتا ہے اور ہلاک افراد کی فوراً ہی تدفین کردی جاتی ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مزید کہتے ہیں کہ حالات معمول پر آنے کے بعد معلومات حاصل کی جائیں گی کہ اس تصادم میں کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔

بی بی سی کو مقامی افراد نے بتایا کہ گذشتہ رات 12 بجے دونوں گروہوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اس دوران بھاری راکٹ اور گولے بھی پارا چنار شہر میں گرے۔

پولیس اور مقامی لوگوں کے مطابق ضلع کرم کے علاقہ بوشہرہ اور مالی خیل میں مقیم قبائل کے درمیان زمین کا تنازع پانچ روز پہلے شروع ہوا اور دونوں جانب سے شدید فائرنگ کی گئی جس میں خود کار بھاری ہتھیار بھی استعمال کیے گئے۔

نمائندہ ڈیلی اردو کے مطابق قبائلی ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات میں اب تک 35 افراد ہلاک اور 166 زِخمی ہوچکے ہیں۔ ایس پی اسپیشل برانچ پشاور نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ کرم میں ابتک اہل تشیع کے 30 افراد ہلاک اور 145 زخمی ہوگئے ہیں جبکہ اہل سنت کے 5 افراد ہلاک اور 21 زخمی ہوئے ہیں۔ فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

زمین کا تنازع فرقہ وارانہ شکل کیسے اختیار کرگیا؟

یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب ضلع کرم میں زمین، پانی، راستوں یا جنگل کی ملکیت کا تنازع خون ریز جھڑپوں میں تبدیل ہوا ہو۔ یہ جھڑپیں اکثر فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں بھی بدل جاتی ہیں۔

گزشتہ ماہ ضلع کرم میں امن کے قیام کے لیے اہلسنت اوراہل تشیع برادری نے علاقے میں خیر سگالی کے لیے اقدامات بھی کیے تھے اور اہلسنت برادری کی احتجاجی ریلی میں اہل تشیع افراد نے پانی کی سبیلیں لگائی تھیں۔

ضلع کرم میں یہ قبائل علاقوں اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ اپر کرم کے علاقے تری مینگل میں اکثریت کا تعلق اہلسنت مکتبہ فکر سے ہے، جبکہ پیواڑ میں مقیم افراد کا تعلق اہل تشیع برادری سے ہے۔

اسی طرح غوز گڑھی میں آباد قبیلے کا تعلق اہلسنت جبکہ کونج علیزئی میں مقیم قبیلے کا تعلق اہل تشیع برادری سے ہے۔

مقامی صحافی علی افضل نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی جو تنازع شروع ہوا ہے یہ ملی خیلاور بوشہرہ قبائل کے درمیان شروع ہوا ہے اور یہ قبائل دریائے کرم کے ساتھ آباد ہیں۔

یہ تنازعات اگرچہ قبائل کے درمیان شروع ہوتے ہیں لیکن باقی علاقوں کے لوگ بھی اس میں مسلک کی وجہ سے شامل ہوجاتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں