لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور کے تھانے قلعہ گُجر سنگھ میں ایس ایچ او کی مدعیت میں تحریکِ لبیک پاکستان کے مرکزی نائب امیر کے خلاف مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
اس مقدمے کے متن کے مطابق ظہیر الحسن نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے متعلق اشتعال انگیز بیان دیا۔
درج ہونے والی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، مذہبی منافرت، فساد پھیلانے، عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی دفعات کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ کو دھمکی، کار سرکار میں مداخلت، قانونی فرائض میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر کے متن میں ’چیف جسٹس آف پاکستان کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے، مزہبی منافرت پھیلانے اور تشدد کے ذرئعے اندرونی فساد پھیلانے، اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس کو شدید دباؤ میں لا کر قانونی فرائض کی بجا آوری میں رکاوٹ ڈالنے، دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرنا بھی شامل ہے۔‘
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مجمع نے روڈ بلاک کر کے اور مجمع میں موجود ایک نا معلوم شخص کا جانب سے فائرنگ کر کے خوف و ہراس پھیلانے اور مجمع میں تقریر سے عوام میں انتشار پھیلانے کا جُرم سر زد کیا ہے۔‘اس سے قبل وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ’ملک میں مذہب کے نام پر خون خرابے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
اسلام آباد میں وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا بدستور جاری ہے جبکہ سپریم کورٹ توہین رسالت کے معاملے میں وضاحت کر چکی ہے مگر ہم کابینہ کی جانب سے سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
وفاقی وزرا نے گذشتہ روز لاہور میں ایک مذہبی جماعت کی جانب سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے متعلق مذہبی منافرت پر مبنی بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کسی کو بھی مذہب کے نام پر نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی اور قانون پوری قوت کے ساتھ حرکت میں آئے گا۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ کئی برسوں سے ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر عدلیہ آئینی معاملات پر فیصلے دے رہی ہے تو اس میں دھمکی دینے کی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا، ملک میں آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔‘
وفاقی وزرا کا کہنا تھا کہ ریاست قطعی اس بات کی اجازت نہیں دے گی کہ آپ قتل کے فتوے جاری کریں۔ سوشل میڈیا پر عوام کو قتل پر اکسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس قسم کی گفتگو توہینِ مذہب ہے۔ یہ ایک نئی شرارت ہے، عدلیہ کی آواز خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ریاست میں سسٹم ہوتا ہے، بے بنیاد الزام نہیں لگا سکتے، قانون میں یہ موجود ہے کہ اگر ایک الزام بے بنیاد لگایا ہے تو اس کی وہی سزا ہے جو اس الزام کے مرتکب فرد کو دی جاتی ہے،
وفاقی وزرا کا کہنا تھا کہ کسی گروہ کی مذہب، سیاست یا ذاتی مفادات کے نام پر ڈکٹیشن ریاست قبول نہیں کرے گی، ریاست قانون کے مطابق اس قسم کے غیر قانونی اقدامات، اس قسم کے فتوؤں کا جواب دے گی۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسی جو عدلیہ کے سربراہ ہیں اور اس ریاستی ستون کے سربراہ کے خلاف کوئی فتویٰ آئین سے اور دین سے کھلی بغاوت ہے، یہ وہ طبقہ ہے جنھیں 2017 اور 2018 میں سیاسی ایجنڈے کے تحت کھڑا کیا گیا تھا۔