کرّم میں زمین کا تنازعہ پُرتشدد فرقہ وارانہ لڑائی میں کیسے بدل جاتا ہے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) ضلع کرم کے صدر مقام پاراچنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر تنازعے نے اب تک درجنوں افراد کی جان لے لی ہے۔

30 جریب یعنی اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازعہ بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے اور حکام کے مطابق یہاں چھ دن قبل شروع ہونے والا تصادم نہ صرف کرم ضلعے میں مختلف علاقوں تک پھیلا بلکہ اس دوران لڑائی میں پیر کی صبح تک کم از کم 43 افراد کی ہلاکت اور 150 سے زیادہ کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کی شب ہونے والی لڑائی میں مزید آٹھ افراد مارے گئے۔ حکام کے مطابق ہلاک شدگان میں سے 35 کا تعلق اہلِ تشیع قبائل جبکہ آٹھ کا اہلسنت قبائل سے ہے۔ اتوار کو بوشہرہ میں لاشوں کا تبادلہ بھی کیا گیا ہے جس میں اہلسنت قبائل نے گیارہ لاشیں اہل تشیع کے حوالے کی ہیں جبکہ اہل تشیع نے تین لاشیں اہلسنت کو دی ہیں۔

کرم کے ضلعی ہسپتال کے میڈیکل سپرٹینڈنٹ ڈاکٹر میر حسن جان نے بی بی سی کو بتایا کہ 24 جولائی سے شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد سے اب تک 32 لاشیں اور 200 سے زیادہ زخمیوں کو صرف ان کے ہسپتال میں لایا گیا جن میں سے 32 زخمی اب بھی زیرِ علاج ہیں جبکہ چھ شدید زخمیوں کو بہتر علاج معالجے کے لیے منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حکام کے مطابق پانچ روزہ تصادم کے بعد اب جہاں بوشہرہ میں فریقین کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے اور مورچے خالی کروا کر وہاں پر پولیس، ایف سی اور فوج کے جوانوں کو تعینات کر دیا گیا ہے وہیں ضلعے کے دیگر کئی مقامات پر قبائل کے درمیان فائرنگ کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری ہے اور فائر بندی کے لیے انتظامیہ اور امن جرگہ کوششیں کر رہا ہے۔

افغان سرحد کے قریب اپر کرم کے علاقے مکبل اور تیری منگل، وسطی کرم میں پاڑہ چمکنی اور لوئر کرم میں بالش خیل میں شیعہ اور سنّی قبائل کے درمیان رات بھر فائرنگ ہوتی رہی ہے۔

تنازع ہے کیا؟

خیال رہے کہ حالیہ تصادم کی وجہ بننے والا زمین کا وہی ٹکڑا ہے جس پر گذشتہ برس جولائی میں تنازعے کی وجہ سے کرّم میں فرقہ ورانہ تصادم شروع ہوا تھا جس میں نصف درجن سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔

امن کمیٹی کے رکن ملک محمود علی جان کے مطابق 100 کنال زمین کا یہ برسوں پرانا تنازعہ گلاب ملی خیل اور مدگی کلے قبائل کے درمیان ہے اور گلاب ملی خیل کا تعلق اہل تشیع سے ہے جبکہ مدگی کلے اہل سنت ہیں۔ ان کے مطابق ’اس تنازعے پر کئی مرتبہ مسلح تصادم ہوئے، جرگے ہوئے مگر ابھی تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔‘

ملک محمود علی خود گذشتہ برس اس معاملے پر ہونے والے جرگے میں شامل تھے۔ انھوں نے بتایا کہ 2023 میں جب مسلح تصادم کے بعد سیز فائر ہوا اور اس کے بعد بڑے جرگے منعقد ہوئے تو ان میں ایک معاہدہ ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ زمین کے اس ٹکڑے کا فیصلہ زمینوں کے تنازعات حل کرنے والی کمیٹی، لینڈ کمیشن، محکمہ مال کے کاغذات کی مدد سے کرے گی جس کو سب تسلیم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں یہ جرگے چلتے رہے اور آخر میں فیصلہ ہوا کہ ’زمین کے ٹکڑے کی ملکیت گلاب ملی خیل کی ہے اور اس فیصلے کے بعد معاملے کا حل نکالنے کے لیے ایک اور تحریری معاہدہ ہوا کہ ایک سال تک گلاب ملی خیل اس زمین کے ٹکڑے کو استعمال نہیں کریں گے اور اس دوران ایک تیسرا فریق اسے استعمال کرے گا اور لگان گلاب ملی خیل کو دے گا جبکہ ایک سال کے بعد گلاب ملی خیل قبائل کی مرضی ہو گی کہ وہ دوبارہ اس کو ٹھیکے پر دیتے ہیں یا خود استعمال کرتے ہیں۔

ملک محمود جان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے کہ جب دو فریقوں کے درمیاں ایسا تنازع ہو جسے حل کیا جانا ہو تو وہ چیز، زمین کے اصل حقدار کو براہ راست نہیں دی جاتی بلکہ تیسرے فریق کو ٹھیکے پر دی جاتی ہے اور وہ تیسرا فریق حقدار کو حق دیتا ہے۔‘

ملک محمود کے مطابق اس تنازعے میں بھی تیسرے فریق نے ایک برس تک وہ زمین استعمال کی اور اس کا لگان گلاب ملی خیل قبائل کو دیا اور اب ایک برس کی تکمیل کے بعد یہ زمین گلاب ملی خیل کو ملنا تھی مگر جب گلاب ملی خیل نے زمین کا مطالبہ کیا تو پھر تصادم ہو گیا۔ ’پہلے ان دونوں فریقوں کے درمیاں جنگ شروع ہوئی مگر بات بڑھتے بڑھتے بڑھتے قبائل سے بھی نکل کر فرقہ وارانہ کشیدگی بن گئی۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا تنازعہ نہیں ہے بلکہ پانچ، چھ اور بڑے تنازعات بھی ہیں جو جب بھی سر اٹھاتے ہیں تو یہ قبائل یا خاندانوں سے نکل کر فرقہ وارانہ تصادم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ خود خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے اعلامیے کے مطابق ’ضلع کرم میں 08 مختلف زمینی تنازعات چل رہے ہیں جن میں سے بیشتر آزادی سے پہلے کے زمانے کے ہیں۔‘

دو قبائل کا تصادم فرقہ وارانہ لڑائی میں کیسے بدلتا ہے؟

بوشہرہ میں گلاب ملی خیل اور مدگی کلے کے دیہات کے رہائشی ایک دوسرے پر تصادم کو ہوا دینے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔

مدگی کلے کے ملک نصیر کا کہنا تھا کہ ’گلاب ملی خیل نے معاملہ بڑھانے کے لیے بوشہرہ ہی میں واقع ایک اور گاؤں پر حملہ کر دیا تھا جس کے بعد اہلسنت کے قبائل مشتعل ہوئے‘ جبکہ گلاب ملی خیل کے نعمان ملک کا کہنا تھا کہ ’مدگی کلے والوں نے اس کو فرقہ واریت کا رنگ دے کر اہلسنت کو اپنے مدد کے لیے بلایا تھا۔‘

پاڑہ چنار میں مقیم ایک سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’لڑائی ابتدائی طور پر بوشہرہ اور گلاب ملی خیل کے درمیان شروع ہوئی تاہم اگلے ہی دن پاڑہ چنار کے اردگرد واقع ایسے دیہات سے، جہاں اہلسنت آبادی کی اکثریت ہے، پاڑہ چنار کی آبادی پر حملے شروع کر دیے گئے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس لڑائی میں ایسے دیہات بھی شامل ہوئے جن کی آبادی پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے آرپار مقیم ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس دوران سرحد پار سے بھی اہلسنت قبائل کو مدد حاصل رہی۔

سماجی کارکن کے مطابق ’پاڑہ چمکنی سے پاڑہ چنار کو نشانہ بنایا گیا۔ پاڑہ چمکنی بلندی پر واقع ہے اور وہاں سے پاڑہ چنار پر بھاری اسلحے سے فائرنگ کی گئی جس سے بچے اور خواتین بھی زخمی ہوئے۔‘ پاڑہ چنار کے نواحی علاقے کے رہائشی میاں خیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس جنگ کے دوران بڑے ہتھیار بھی استعمال ہوتے رہے۔ یہ دو قبائل کی جنگ نہیں بلکہ دو ملکوں کی جنگ لگ رہی تھی جس میں راکٹ لانچر، میزائل، بڑی بندوقیں سب کچھ استعمال ہوتا رہا‘۔

ان الزامات پر جب ضلع کرم میں حکام سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی جواب نہیں ملا تاہم علاقے سے حکومتی اتحاد کے رکنِ قومی اسمبلی انجینیئر حمید حسن کا کہنا ہے کہ ’افغانستان سے متصل ضلع کرّم ایک حساس علاقہ ہے اور جب علاقے کے مسائل حل نہیں کیے جاتے تو سازشیں کرنے والوں کو مواقع ملتے ہیں۔‘

’حالیہ واقعہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہ زمین کا تنازعہ تھا مگر بدقسمتی سے فرقہ واریت کی جنگ میں بدل گیا جس کے بعد پورے علاقے میں دونوں فرقوں کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہو گئے جبکہ افغانستان سے بھی مداخلت ہوتی رہی تھی کیونکہ پاکستان اور افغانستان میں ا یک دوسرے کے رشتہ دار قبائل موجود ہوتے ہیں۔‘

حمید حسن کہتے ہیں کہ ’حالیہ تصادم کا تو کوئی جواز ہی نہیں تھا۔ سب کچھ طے تھا صرف عملدر آمد ہونا تھا، وہ تو ہوا نہیں مگر معاملہ ایک جنگ میں تبدیل ہو گیا۔‘

ان کے مطابق ’زمین کا ایسا تنازعہ فرقہ واریت میں بدلنے میں چند منٹ لگتے ہیں۔ جب تنازعہ شروع ہوتا ہے تو اس وقت ہی کچھ شرپسند لوگ فعال ہوجاتے ہیں۔ علاقوں اور مساجد میں اعلانات شروع ہو جاتے ہیں۔ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، افواہیں پھیلائی جاتی ہیں اور لوگوں کو اپنے اپنے فرقے کے نام پر بلایا جاتا ہے‘۔

رکن قومی اسمبلی کے مطابق ’بوشہرہ والے تصادم میں بھی یہ ہی ہوا جب زمین کا تنازعہ معاہدے کے مطابق حل نہ ہوا اور زمین گلاب ملی خیل کے حوالے نہ کی گی تو پھر یہ تنازعہ بوشہرہ سے بڑھتے ہوئے مختلف مقامات تک جا پہنچا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت اور انتظامیہ پہلے ہی زمین کے تنازعہ کو حل کرتی تو کبھی بھی ایسے نہ ہوتا۔

اس تنازعے کا حل کیا ہے؟

کرّم کی سماجی تنظیم ریفارم کمیٹی کے سربراہ عطا اللہ کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے جرگوں کے فیصلوں اور ان کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد نہ کروانا اس تنازعے کے بار بار سر اٹھانے کی وجہ بن رہا ہے۔

ان کے مطابق ’ہر کچھ عرصے کے بعد زمین کے تنازعات کو فرقہ واریت کا رنگ دیا جاتا ہے جس کے بعد جرگے ہوتے ہیں، معاہدے ہوتے ہیں مگر ان معاہدوں پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے حالانکہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان معاہدوں پر عمل کروائے اور حق داروں کو حق دلائے مگر جب ایسا نہیں ہوتا تو پھر سازشیں بھی ہوتی ہیں اور مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔‘

عطا اللہ کے مطابق ’کسی نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ حکومت مری معاہدہ پر عمل درآمد کرواتی۔ گذشتہ سال جو گرینڈ جرگے ہوئے ان کے فیصلوں پر عملدرآمد کرواتی مگر ایسا نہیں ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اصل میں تنازعات کو حل نہ کرنا شیعہ سنی تصادم کی بنیاد بن جاتا ہے۔ ’حالیہ تصادم میں مقامی عام لوگوں کو اندازہ ہو گیا تھا کہ زمین کا تنازعہ اب فرقہ وارانہ تصادم کی شکل اختیار کرلے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کو اس بارے میں اندازہ نہ ہو؟‘

امن کمیٹی کے رکن ملک محمود علی جان کے مطابق کرّم میں اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیاں صرف زمین کا ایک یہی تنازعہ نہیں ہے کم از کم پانچ دیگر اور بڑے تنازعات بھی موجود ہیں جن پر بڑی لڑائیاں ہو چکی ہیں۔ان میں پیوار اور گیڈو تنازعہ، کنج علی زئی اور مقبل تنازعہ، بالش خیل اور پراچکنی تنازعہ، حمزہ خیل اور شورکو بنگش تنازعہ اور نور حسین اور بوشہرہ تنازعہ شامل ہیں۔

امن کمیٹی کے رکن کے مطابق ان سب تنازعات کو بھی حل نہ کیا گیا تو گلاب ملی خیل اور مدگی گے تنازعہ کی طرح یہ تنازعات بھی کسی وقت بڑی جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ ضلع کرم میں مقیم قبائل علاقوں اور فرقوں کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ اپر کرم کے علاقے تری مینگل میں اکثریت کا تعلق اہلسنت مکتبہ فکر سے ہے جبکہ پیواڑ میں مقیم افراد کا تعلق اہل تشیع برادری سے ہے۔ اسی طرح غوز گڑھی میں آباد قبیلے کا تعلق اہلسنت جبکہ کونج علیزئی میں مقیم قبیلے کا تعلق اہل تشیع برادری سے ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں