راولپنڈی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی) کا کہنا ہے کہ 24 جولائی کو نام نہاد بلوچ راجی موچی کے آڑ میں ایک پرتشدد ہجوم نے گوادر ضلع میں سکیورٹی ڈیوٹی پر مامور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں سبی سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ سپاہی شبیر بلوچ ہلاک ہو گئے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پرتشدد مظاہرین کی بلا اشتعال حملوں کے نتیجے میں ایک افسر سمیت 16 فوجی زخمی ہوئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر غیر قانونی پرتشدد مارچ کے لیے ہمدردی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرنے والوں کی جانب سے جعلی تصاویر اور ویڈیوز کا استعمال کرتے ہوئے جعلی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ سیکورٹی فورسز نے اشتعال انگیزی کے باوجود غیر ضروری شہری ہلاکتوں سے بچنے کے لیے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ کہ ہجوم کی پرتشدد کارروائیاں ناقابل قبول ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
آئی ایس پی آر نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں، پرسکون اور پرامن رہیں اور امن و امان کو برقرار رکھنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اتوار کو اس احتجاج کے موقع پر فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور کم از کم دو افراد زخمی ہوئے۔ اتوار کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے دعویٰ کیا تھا کہ گوادر میں فائرنگ سے زخمی ہونے والوں کی تعداد آٹھ ہے جبکہ سنیچر کو مستونگ میں زخمیوں کی تعداد 14 تھی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا فوج کی جانب سے دھرنے کے شرکا پر فائرنگ اور تشدد کا الزام
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائے سی) نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستانی فوج اور ایف سی نے پرامن بلوچ قومی اجتماع (جسے دھرنے میں تبدیل کر دیا گیا ہے) پر ایک اور حملہ کیا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ اجتماع کو چاروں اطراف سے گھیر لیا گیا ہے، پرامن مظاہرین پر فائرنگ کی گئی ہے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد زخمی اور سینکروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
انھوں نے مزید الزام عائد کیا کہ پاکستانی حکومت گوادر میں پرامن مظاہرین کے خلاف ظلم و جبر کا مظاہرہ کر رہی ہے اور فوج نے پورے شہر کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان کا الزام ہے کہ ہمیں زخمیوں کو یہاں سے نکالنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور نہ ایمبولینسوں کو راستہ دیا جا رہا ہے۔
گوادر میں موبائل و لینڈ لائن فونز اور راستوں کی بندش کے باعث بی بی سی ان الزامات کی تصدیق کرنے سے قاصر ہے۔
’بلوچ قومی اجتماع میں شریک افراد کے ارادے پرامن نہیں ہیں‘ سرفراز بگٹی
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان قومی اجتماع میں شریک افراد کے ارادے پرامن نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ہماری بتائی جگہ پر آپ نے دھرنا نہیں دینا تو پھر اجازت کس چیز کی مانگی گئی؟ اگر پرامن رہنا تھا تو تربت میں جلسہ کر لیتے۔
انھوں نے بلوچستان اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے پرامن لوگ ہیں جو ایف سی پر فائرنگ کر لیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بیشتر ضلعوں کی سڑکیں کھلی ہیں اور زندگی معمول کے مطابق چل رہی ہے۔