راولپنڈی (ڈیلی اردو) پاکستان کی فوج نے بغاوت پر اکسانے کے الزام میں ایک اور ریٹائرڈ افسر کا کورٹ مارشل کیا ہے۔
افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے ‘آئی ایس پی آر’ کی جانب سے منگل کو جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ لیفٹننٹ کرنل (ر) اکبر حسین کا کورٹ مارشل کر کے اُن کا رینک بھی ضبط کر لیا گیا ہے۔
فوج کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ لیفٹننٹ کرنل (ر) اکبر حسین پر فوج کے سابق اہلکاروں کو بغاوت پر اُکسانے کا الزام تھا۔
بیان کے مطابق لیفٹننٹ کرنل (ر) اکبر حسین کا کورٹ مارشل پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کیا گیا۔ مجاز عدالت نے عدالتی عمل کے ذریعے جرم کا مرتکب قرار دیا اور 14 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
اکبر حسین کے بارے میں یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اس وقت کس ملک میں ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ کی بائیو میں انہوں نے لکھا ہے کہ وہ ایک پاکستانی امریکی شہری ہیں۔
پاکستان فوج کی جانب سے کورٹ مارشل سے متعلق جاری بیان کے بعد اکبر حسین کے ایکس اکاؤنٹ سے عادل راجا کی ایک پوسٹ کو بھی ری پوسٹ کیا گیا ہے۔
فوج کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل گزشتہ برس میجر (ر) عادل فاروق راجا اور کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو بھی سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
آئی ایس پی آر کے مطابق دونوں سابق افسران کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے اور سرکاری راز افشا کرنے کے آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت سازش اور ریاست کی سلامتی کو خطرہ میں ڈالنے کے الزام میں کارروائی کی گئی تھی۔
میجر (ر) عادل راجا کو سات اکتوبر 2023 کو 14 برس قید جب کہ کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کو نو اکتوبر 2023 کو 12 برس قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ دونوں سابق افسران سے ان کے رینکس بھی واپس لے لیے گئے تھے۔
یہ دونوں سابق افسران اس وقت بیرونِ ملک مقیم ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ان افسران نے پاکستان فوج کی سینئر قیادت پر شدید نوعیت کے الزامات عائد کیے اور بیرونِ ملک بیٹھ کر یوٹیوب چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے فوج کے اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش کی۔
میجر (ر) عادل راجا اس وقت برطانیہ جب کہ کیپٹن (ر) حیدر رضا مہدی کینیڈا میں مقیم ہیں۔ گزشتہ برس جون میں برطانیہ میں عادل راجا کی میٹروپولیٹن پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ پولیس نے ان کی گرفتاری کی تردید یا تصدیق سے انکار کردیا تھا۔ تاہم ان کے اپنے وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پولیس نے حراست میں لیا تھا اور بعد ازاں انہیں رہا کر دیا گیا۔