اسماعیل ہنیہ کے ہلاکت پر عالمی ردِعمل؛ امریکہ کا اظہارِ لاتعلقی

واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) ترکیہ، روس، چین اور قطر سمیت کئی ملکوں نے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے تہران میں ہلاکت کی مذمت کی ہے اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس قتل کے بعد غزہ میں جاری جنگ کا تنازع خطے میں پھیل سکتا ہے۔

اسماعیل ہنیہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران میں موجود تھے جہاں وہ بدھ کی علی الصباح قاتلانہ حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔

ان کی موت ایسے موقع پر ہوئی ہے جب امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکراتی عمل جاری تھا اور جلد کسی معاہدے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا۔

ہنیہ کے ہلاکت کے بعد ایران کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔

ترجمان ایرانی وزارتِ خارجہ ناصر کنعانی کے مطابق اسماعیل ہنیہ کی موت سے فلسطین اور مزاحمت سے ایران کا تعلق مزید مضبوط ہوگا۔

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے بھی ایک بیان میں اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ایک بزدلانہ اقدام اور خطرناک پیش رفت ہے۔

صدر عباس نے بیان میں فلسطینی عوام پر زور دیتے ہوئے انہیں اسرائیل کے خلاف متحد اور صبر کے ساتھ ثابت قدم رہنے کی تلقین کی ہے۔

خبر رساں اسارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اسماعیل ہنیہ کے صاحب زادے عبد السلام ہنیہ نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے والد چار بار قاتلانہ حملوں میں محفوظ رہے تھے۔ آج ان کو وہ موت ملی جس کی وہ خواہش رکھتے تھے۔

امریکہ کا اظہارِ لاتعلقی

امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس میں ملوث نہیں ہے۔

سنگاپور میں ایک ٹی وی انٹرویو میں بلنکن کا کہنا تھا کہ “ہمیں اس بارے میں نہیں جانتے تھے اور نہ ہی ہم اس میں ملوث ہیں، اس معاملے میں قیاس آرائیاں کرنا بہت مشکل ہے۔”

اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے جنگ پر اس کے ممکنہ اثرات پر بلنکن کا کہنا تھا کہ “میں نے کئی برسوں کے دوران یہ سیکھا ہے کہ کسی واقعے کے اثرات کے بارے میں قیاس آرائی نہیں کرنی چاہیے۔”

پاکستان کا ردِعمل

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ پاکستان کو خطے میں اسرائیلی مہم جوئی پر سنجیدہ تحفظات ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر قسم کی مذمت کرتا ہے۔ ہم حملے کی ٹائمنگ پر حیران ہیں۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب پاکستانی نائب وزیرِ اعظم سمیت کئی غیر ملکی مہمان نو منتخب ایرانی صدر کی حلف برداری میں شریک تھے۔

قطر کی مذمت

قطر نے اسماعیل ہنیہ کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس قتل کو گھناؤنا جرم اور کشیدگی میں خطرناک اضافے کا سبب سمجھتا ہے۔

قطری وزارتِ خارجہ کے مطابق یہ اقدام بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کے قوانین کی بھی خلاف روزی ہے۔

بیان کے مطابق اسماعیل ہنیہ کا قتل اور اسرائیل کا غزہ میں مسلسل عام شہریوں کو نشانہ بنانا خطے کو افراتفری کی جانب دھکیل دے گا اور اس سے امن کے امکانات محدود ہو جائیں گے۔

چین کی مذمت

چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان لی جیان نے ایک بیان میں حماس کے رہنما کی موت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ کو اس واقعے پر شدید تشویش ہے۔

بیان میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس واقعے سے ہو سکتا ہے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو۔ غزہ میں جلد از جلد جامع اور مستقل جنگ بندی ہونی چاہیے۔

خیال رہے کہ حماس، الفتح سمیت 14 تنظیموں نے گزشتہ ہفتے چین میں ایک مذاکراتی عمل کے بعد اختلافات ختم کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اسرائیل نے بیجنگ میں چین کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے پر مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ جنگ کے بعد غزہ کی قومی مصالحتی حکومت میں حماس کو شریک نہیں کیا جائے گا۔

ترکیہ کو تنازع پھیلنے کا اندیشہ

ترکیہ کی وزارتِ خارجہ نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ “ایک بار پھر ثابت ہوا کہ اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی حکومت قیام امن کی خواہش مند نہیں ہے۔”

خبر رساں ادارے ’انادولو‘ کی رپورٹ کے مطابق ترک وزارتِ خارجہ نے بیان میں متنبہ کیا کہ اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو روکنے کے اقدامات نہ کیے تو خطے کو مزید بڑے تنازعات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بیان کے مطابق ترکیہ فلسطینی عوام کے مقاصد کی حمایت جاری رکھے گا۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے بھی سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل فلسطینیوں کی خواہش کو ختم نہیں کر سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہنیہ کا قتل مسئلہ فلسطین کے مقصد کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا۔ اس قتل کا مقصد غزہ کی عظیم مزاحمت اور ہمارے فلسطینی بچوں کی جائز جدوجہد کو متاثر کرنا اور انہیں خوف زدہ کرنا تھا لیکن صیہونیوں کی بربریت اپنے مقاصد حاصل نہیں کرے گی۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان نے تین روز قبل ہی فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسرائیل میں داخل ہونے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ ترکیہ اسرائیل میں بھی اسی طرح داخل ہو سکتا ہے جس طرح وہ ماضی میں لیبیا اور ناگورنو کاراباخ میں داخل ہو چکا ہے۔

ہنیہ کی موت ناقابلِ قبول سیاسی قتل ہے: روس

روس نے اسماعیل ہنیہ کی موت کو ناقابلِ قبول سیاسی قتل قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق روس کے نائب وزیرِ خارجہ میخائل بوگدانوف کا روسی میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ ایک ناقابلِ قبول سیاسی قتل ہے جس سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس قتل سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے رکن کا تبصرہ

اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل وزیرِ ثقافت عمیحائی اِلیاہو نے سوشل میڈیا پر عبرانی زبان میں ایک بیان میں کہا ہے کہ دنیا کو گندگی سے پاک کرنے کا یہی درست طریقہ ہے۔ مزید کوئی ’امن‘ یا ہتھیار ڈالنے کے معاہدے نہیں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے سے امن آئے گا اور امن کی خواہش رکھنے والوں کے ساتھ رہنے والوں کو سکون اور تقویت ملے گی۔

ان کے بقول ’’ہنیہ کی موت دنیا کو کچھ بہتر بنا دے گی۔‘‘

واضح رہے کہ اسرائیل میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ میں دائیں بازوں کی کئی سخت گیر جماعتیں شامل ہیں۔

ملائیشیا کا کشیدگی کی کمی پر زور

ملائیشیا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ ہدف بنا کر قتل کے واقعات سمیت تشدد کی تمام کارروائیوں کی مذمت کرتا ہے۔

ملائیشیا نے بیان میں زور دیا ہے کہ امن پسند اقوام ایسی کارروائیوں کی مذمت میں شامل ہوں۔

بیان کے مطابق یہ واقعہ کشیدگی میں کمی کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے اور اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ تمام فریق تعمیری مذاکرات اور پر امن حل کی جانب بڑھیں۔

امریکہ ہلاکت کی رپورٹس سے آگاہ

امریکہ نے اس قتل پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ البتہ امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ وہ حماس کے رہنما کی ہلاکت کی رپورٹ سے آگاہ ہے۔ البتہ انہوں نے اس کے علاوہ کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

خیال رہے کہ امریکہ، اسرائیل اور بعض یورپی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بدھ کو فلپائن میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ میرے خیال میں جنگ ناگزیر نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ یہ ممکن بنایا جائے کہ تنازع کو خطے میں پھیلنے سے روکا جائے۔

امریکی رہنماؤں نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کرنے والے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو پر جنگ بندی پر زور دیا تھا۔ نیتن یاہو نے صدر جو بائیڈن، نائب صدر کاملا ہیرس اور ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں۔

نیتن یاہو نے گزشتہ ہفتے امریکی کانگریس سے خطاب بھی کیا تھا۔ اس دوران کئی سرکردہ ارکان نے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی جب کہ ان کے خطاب کے موقع پر متعدد مظاہرین نے کیپٹل ہل کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔

دوسری جانب اسرائیل کے اندر بھی بن یامین نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔ مظاہروں میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی مذاکرات میں پیش رفت کرے تاکہ حماس کی تحویل میں موجود یرغمال افراد کی بازیابی ممکن ہو سکے۔

اسرائیل کی حکومت نے دس ماہ قبل غزہ میں جنگ کا آغاز کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حماس کے مکمل خاتمے اور یرغمالوں کی رہائی تک کارروائی جاری رہے گی۔ البتہ 10 ماہ بعد بھی اسرائیلی فورسز غزہ میں کارروائیوں میں مصروف ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔

حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔

حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے سو سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کے عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔

اسرائیلی حکام کے مطابق سو کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کو دس ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 39 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔

امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی ماہ سے جنگ بندی کے معاہدے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ معاہدہ امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے رواں سال مئی میں تجویز کیا گیا تھا۔

معاہدے کے پہلے مرحلے میں چھ ہفتوں کے لیے جنگ بندی کی تجویز کے علاوہ سات اکتوبر کو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلی شہریوں کے بدلے اسرائیلی جیل میں قید فلسطینی قیدیوں کی رہائی شامل تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں