تہران (ڈیلی اردو/وی او اے) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ صیہونی حکومت نے ایران کے مہمان کو ہمارے گھر میں قتل کر کے ہمیں سوگوار کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اپنے لیے سخت سزا کی زمین بھی ہموار کی ہے۔
حماس کے سیاسی ونگ کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایران کے دارالحکومت تہران میں قتل کر دیا گیا ہے۔ ان کے ہمراہ ایک محافظ بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ ایران اور حماس کی جانب سے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جا رہا ہے۔ البتہ اسرائیل نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
اسماعیل ہنیہ کی موت پر جاری ایک بیان میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ “وہ خدا کی راہ میں موت سے ڈرنے والے نہیں تھے۔”
حماس کے رہنما کی موت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ تلخ اور مشکل واقعہ ایران کی سرزمین پر پیش آیا ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے خون کا بدلہ لینا لازم ہے۔
بیان میں انہوں نے اسماعیل ہنیہ کے اہلِ خانہ، فلسطینی عوام اور ان کے ساتھیوں سے تعزیت کا بھی اظہار کیا ہے۔
ان کے بیان کے بعد ایران کے پاسدارانِ انقلاب نے بھی بیان جاری کیا کہ اسرائیل کو ایران اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے سخت اور تکلیف دہ ردِ عمل کا سامنا کرنا ہو گا۔
پاسدارانِ انقلاب نے بیان میں مزید کہا کہ اس جرم سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی گروہ بین الاقوامی قواعد و ضوابط کی پرواہ کیے بغیر غزہ کی جنگ میں اپنی شرم ناک ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مزید کسی مجرمانہ کارروائی سے باز نہیں آتے۔ غزہ کی جنگ میں خواتین، مردوں اور بچوں سمیت ہزاروں فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا گیا۔
دوسری جانب ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ایک بیان میں کہا کہ قابضین کو اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بزدلانہ فعل پر پچھتاوے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایران اپنی علاقائی خود مختاری، وقار، عزت اور فخر کا تحفظ کرے گا۔
ان کے بقول قابضین اپنے بزدلانہ فعل پر پچھتائیں گے۔
واضح رہے کہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے منگل کو ہی حلف اٹھایا ہے اور ملک میں تین دن کے سوگ کا اعلان ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کے قتل پر باقاعدہ کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
البتہ اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل وزیرِ ثقافت عمیحائی اِلیاہو نے سوشل میڈیا پر عبرانی زبان میں ایک بیان میں کہا ہے کہ دنیا کو “گندگی سے پاک کرنے کا یہی درست طریقہ ہے۔ مزید کوئی ’امن‘ یا ہتھیار ڈالنے کے معاہدے نہیں ہوں گے۔”
ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے سے امن آئے گا اور امن کی خواہش رکھنے والوں کے ساتھ رہنے والوں کو سکون اور تقویت ملے گی۔
ان کے بقول ’’ہنیہ کی موت دنیا کو کچھ بہتر بنا دے گی۔‘‘
واضح رہے کہ اسرائیل میں اتحادی حکومت قائم ہے۔ وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی کابینہ میں دائیں بازو کی کئی سخت گیر جماعتیں شامل ہیں۔
اسرائیل اور ایران میں گزشتہ چار ماہ سے شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ رواں برس اپریل کے آغاز میں شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر فضائی حملہ ہوا تھا۔
یکم اپریل کو سفارت خانے پر حملے کے لیے ایران نے اسرائیل کو ذمے دار قرار دیا تھا۔ اسرائیل نے اس حملے کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی۔ اس حملے میں ایرانی فورس پاسدارانِ انقلاب کے دو جنرلوں سمیت سات اہل کار ہلاک ہوئے تھے۔
شام میں سفارت خانے پر حملے کے دو ہفتے بعد 13 اپریل کو ایران نے اسرائیل پر لگ بھگ 300 میزائل اور ڈرون داغے تھے۔ اسرائیلی فورسز نے اتحادی ممالک کی مدد ان میں سے بیشتر کو تباہ کر دیا تھا۔
یہ ایران کا اسرائیل پر غیر معمولی براہِ راست حملہ تھا۔ اسرائیل نے ان میں سے ایک میزائل فوجی اڈے پر بھی گرنے کی تصدیق کی تھی۔ البتہ ان حملوں میں کسی جانی نقصان کی رپورٹ سامنے نہیں آئی تھی۔
اس کے بعد اسرائیل کی فوج کے سربراہ ہرزی حلوی نے اعلان کیا تھا کہ ایران کے حملوں کا جواب دیا جائے گا۔
بعد ازاں اسرائیل کی جانب سے ایران کے شہر اصفہان میں دھماکوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ رپورٹس میں سامنے آیا تھا کہ یہ اسرائیل نے ایران پر میزائل داغے تھے۔
خیال رہے کہ اسرائیل 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران کا بڑا حریف ملک ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور شام، عراق اور یمن میں ایران کی پشت پناہی میں فعال عسکری گروپس سرگرم ہو گئے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل مختلف وقتوں میں ان عسکری گروہوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
بعد ازاں مئی کے وسط میں اس وقت کے صدر ابراہیم رئیسی ایرانی صوبے مشرقی آذر بائیجان میں ہیلی کاپٹر گرنے کے واقعے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
ان کے ہمراہ ہیلی کاپٹر میں سوار وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان اور دیگر چھ افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ابتدا میں اس واقعے پر سوالات اٹھے تھے۔
لیکن بعد ازاں ایرانی فوج کی جانب سے جاری کی گئی ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حادثے کے متعلق تحقیقات میں کسی حملے یا کسی نوعیت کی گڑبڑ کے شواہد نہیں ملے۔ ایسے شواہد یا علامات نہیں ملے جس سے یہ ظاہر ہو کہ اسے گولی یا اسی طرح کی کسی اور چیز سے نشانہ بنایا گیا ہو۔
اسرائیل اور ایران میں کشیدگی میں گزشتہ برس اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
حماس نے گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر دہشت گرد حملہ کیا تھا۔
حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔
حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں سے سو سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کے عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق سو کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے حملے کے فوری بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور بمباری شروع کر دی تھی۔
غزہ میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کو دس ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 39 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔
حماس کو امریکہ، اسرائیل اور بعض مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
حماس کے حملے کے بعد 28 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے الزام عائد کیا تھا کہ حماس کی عسکری کارروائیوں کے لیے 90 فی صد بجٹ ایران سے آتا ہے۔
غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کی بھی اسرائیل کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں اضافہ ہوا ہے۔
منگل کو ہی اسرائیل نے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں بمباری کی ہے جس میں اسرائیلی فوج نے حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔
اسرائیل اس حملے کو گولان کی پہاڑیوں ہر اسرائیلی علاقے مجدل شمس میں ہونے والے حملے کا جواب بھی قرار دے رہا ہے۔ مجدل شمس ایک کھیل کے میدان پر میزائل حملہ ہوا تھا جس میں بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حزب اللہ نے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔
حزب اللہ کے کئی کمانڈر اور کارکن حالیہ دنوں میں اسرائیلی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔ حزب اللہ نے بھی اسرائیل میں فوجی تنصیابات اور شہری املاک پر میزائل داغے ہیں۔
دوسری جانب یمن کے وسیح رقبے پر قابض ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی بھی اسرائیل کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو ہفتے قبل بھی حوثیوں نے اسرائیلی شہر تل ابیب پر ڈرون حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں ایک شخص ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔
اسرائیل نے اس حملے کے جواب میں یمن میں حوثیوں کے زیرِ کنٹرول علاقے میں الحدیدہ کی بندرگاہ سمیت کئی مقامات کو نشانہ بنایا۔
ان حملوں میں تین افراد ہلاک اور 80 زخمی ہوئے تھے۔
یمن کو جزیرہ نما عرب کا غریب ترین ملک میں شمار کیا جاتا ہے جو کئی برس سے خانہ جنگی کا بھی شکار ہے۔ یمن اور اسرائیل کے درمیان لگ بھگ دو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ ہے۔
گزشتہ برس نومبر کے بعد سے حوثیوں نے بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں جہاز رانی پر درجنوں ڈرون اور میزائل حملے بھی کیے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ حملے اسرائیل سے منسلک جہازوں پر کیے گئے۔
امریکہ اور برطانیہ نے جنوری میں جہاز رانی پر حملوں کو روکنے کے لیے فضائی حملوں کی مہم شروع کی تھی۔
واضح رہے کہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد کئی ممالک نے مذمتی بیان جاری کیے ہیں ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں جاری تنازع خطے میں پھیل سکتا ہے۔