اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کی وزارت داخلہ نے دہشت گردی میں ملوث دو تنظیموں حافظ گل بہادر گروپ اور مجید بریگیڈ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد دونوں جماعتوں کو نیکٹا نے کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔
وزارت داخلہ سے جاری نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ دونوں جماعتوں کو دو سال تک نگرانی کے بعد کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے شیئر کی گئی فہرست کے مطابق ملک میں کالعدم جماعتوں کی تعداد بڑھ کر اب 81 ہو گئی ہے۔
حافظ گل بہادر گروپ کا پس منظر
شمالی وزیرستان میں متحرک حافظ گل بہادر گروپ اس وقت منظر عام پر آئے جب حافظ گل بہادر نے بیت اللہ محسود کی سربراہی میں قائم کالعدم تنظیم تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
بیت اللہ محسود جب سنہ 2007 میں تنظیم کے سربراہ مقرر ہوئے تو اس وقت حافظ گل بہادر کو شمالی وزیرستان میں نائب امیر مقرر کیا گیا تھا۔
حافظ گل بہادر بنیادی طور پر اتمانزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے سنہ 2001 میں 4000 رضا کاروں پر مشتمل ایک فورس قائم کی تھی۔
افغانستان میں پاکستانی کارروائی کا نشانہ حافظ گل بہادر گروپ، جو ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور ہوا
حافظ گل بہادر گروپ ماضی میں پاکستان حکومت کی زیادہ مخالفت میں نہیں رہا لیکن شمالی وزیرستان میں جون سنہ 2014 میں آپریشن ’ضرب عضب‘ شروع ہوا جس کے بعد حافظ گل بہادر اور ان کا گروہ غیر فعال ہو گیا تھا۔
اس آپریشن سے پہلے حافظ گل بہادر گروپ حکومت کا حمایتی گروپ سمجھا جاتا تھا اور ایسی اطلاعات تھیں کہ یہ گروپ طالبان کے اندر پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے خلاف تھا۔ اس گروپ کے بارے میں تجزیہ کار یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ’گُڈ طالبان‘ تھے۔
’گُڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور
شمالی وزیرستان میں سنہ 2014 میں بڑا فوجی آپریشن شروع کیا گیا تھا جسے آپریشن ’ضرب عضب‘ کا نام دیا گیا تھا۔
اس آپریشن سے پہلے حافظ گل بہادر گروپ حکومت کا حمایتی گروپ سمجھا جاتا تھا اور ایسی اطلاعات تھیں کہ یہ گروپ طالبان کے اندر پاکستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے خلاف تھا۔
اس گروپ کے بارے میں تجزیہ کار یہی کہتے آئے ہیں کہ یہ ’گُڈ طالبان‘ تھے۔
سنہ 2022 میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا آغاز کیا جا رہا تھا تو ان دنوں میں طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ بھی بات چیت کی خبریں سامنے آئی تھیں اور ایک خبر یہ بھی تھی کہ شمالی وزیرستان کی حد تک جنگ بندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس بارے میں مزید کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی تھی۔
یاد رہے کہ اکتوبر2021 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ طالبان کے مختلف دھڑوں سے بات چیت کی جا رہی ہے۔
اس میں ایک گروپ حافظ گل بہادر کا بھی تھا۔
خبر کچھ یوں سامنے آئی تھی کہ شمالی وزیرستان مسلح گروپ شوریٰ مجاہدین نے یکم اکتوبر سے علاقے میں 20 دن کے لیے فائر بندی کا اعلان کر دیا اور کہا کہ اگر حکومت کے ساتھ بات چیت میں کامیابی ہوئی تو فائر بندی میں توسیع کی جا سکتی ہے۔
اس بیان کے بعد ٹی ٹی پی نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ کہا تھا کہ ان کی اپنے دھڑوں میں بات چیت جاری ہے۔ شوریٰ مجاہدین ٹی ٹی پی میں ضم نہیں ہوئے ہیں۔
اس جنگ بندی کے اعلان کے بارے میں ذرائع نے بتایا تھا کہ حافظ گل بہادر کے گروپ شوریٰ مجاہدین کے سرکردہ رہنما صادق نور اور صدیق اللہ نے فائر بندی کا فیصلہ کیا تھا۔
شمالی وزیرستان میں متحرک حافظ گل بہادر گروپ اس وقت منظر عام پر آئے جب حافظ گل بہادر نے بیت اللہ محسود کی سربراہی میں قائم کالعدم تنظیم تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔
بیت اللہ محسود جب سنہ 2007 میں تنظیم کے سربراہ مقرر ہوئے تو اس وقت حافظ گل بہادر کو شمالی وزیرستان میں نائب امیر مقرر کیا گیا تھا۔
ایسی اطلاعات ہیں کہ حافظ گل بہادر کو ٹی ٹی پی کی پالیسیوں خاص طور پر پاکستان کے اداروں پر حملوں سے اختلاف تھا۔ حافظ گل بہادر افغانستان میں روس کے حملے کے بعد مجاہدین کے ساتھ جنگ کا حصہ تھے۔
حافظ گل بہادر بنیادی طور پر اتمانزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے سنہ 2001 میں 4000 رضا کاروں پر مشتمل ایک فورس قائم کی تھی۔
حافظ گل بہادر گروپ ماضی میں پاکستان حکومت کی زیادہ مخالفت میں نہیں رہا لیکن شمالی وزیرستان میں جون سنہ 2014 میں آپریشن ’ضرب عضب‘ شروع ہوا جس کے بعد حافظ گل بہادر اور ان کا گروہ غیر فعال ہو گیا تھا۔
اس آپریشن میں حکومت نے متعدد شدت پسندوں کی ہلاکت کے دعوے بھی کیے تھے اور کہا تھا کہ یہ علاقہ اب شدت پسندوں سے صاف کر دیا گیا ہے۔
مذاکرات اور اختلافات
اگرچہ قبائلی علاقوں میں بر سر پیکار شدت پسندوں کے ساتھ حکومت نے مختلف معاہدے کیے اور انھیں تحریر میں بھی لایا گیا جن میں نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے ساتھ کیے گئے معاہدے اہم ہیں۔ یہ معاہدے ہوئے، پھر خلاف ورزیاں ہوئیں اور یوں یہ بندھن بھی ٹوٹ گئے۔
اس کے ساتھ کچھ غیر تحریری معاہدے بھی کیے گئے جن میں حکومت کا حافظ گل بہادر گروپ کے ساتھ معاہدہ شامل تھا۔
حافظ گل بہادر شوریٰ مجاہدین گروپ کے سربراہ تھے اور ان پر افغانستان میں حملوں کا الزام لگتا تھا۔
ان کے بارے میں سلیم شہزاد نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ یہ ان ہی گروپس میں سے ایک ہیں جن کے لیے ’گڈ طالبان‘ کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔
حقانی نیٹ ورک کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے اور ان کی طرح یہ بھی امریکی افواج کے خلاف کارروائیاں کر رہے تھے۔
پاکستان نے ان سے معاہدہ کیا کہ وہ پاکستانی فوج اور شہریوں کے خلاف کارروائی نہیں کریں گے۔ یہ معاہدہ سنہ 2008 میں بھی دوبارہ کیا گیا اور اس گروہ نے فوج کے خلاف کارروائیاں روک دیں۔
سنہ 2014 میں جب پاکستان نے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا تو حافظ گل بہادر گروپ نے اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ اب وہ ’افغانستان میں اپنی کارروائیاں روک رہے ہیں اور پہلے پاکستانی فوج سے نمٹیں گے۔‘
مجید بریگیڈ کیوں بنائی گئی؟
1975 میں اگست کے مہینے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کوئٹہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرنے کے لیے پہنچے تو ایک دستی بم دھماکے میں مجید لانگو نامی نوجوان ہلاک ہو گیا بعد میں یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ نوجوان بھٹو پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
مجید لانگو کا تعلق منگوچر کے علاقے سے تھا اور وہ طالب علمی سے بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن یعنی بی ایس او سے وابستہ تھا۔
گوادر پورٹ اتھارٹی کے دفتر پر 20 مارچ 2024 میں حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والا مجید بریگیڈ کیا ہے؟مجید لانگو کی ہلاکت کے بعد ان کے چھوٹے بھائی مجید نے کالعدم بلوچ لبرشین آرمی میں شمولیت اختیار کی اور سنہ 2011 میں کوئٹہ کے قریب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ایک مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔
بی ایل اے کا کہنا ہے کہ اسی ہلاکت والے دن اس فدائی گروپ کی تشکیل کا اعلان ہوا اور استاد اسلم نے اس کا نام دونوں بھائیوں کی بہادری کے پیش نظر مجید بریگیڈ رکھا۔
گذشتہ چند سالوں میں اس انتہا پسند گروپ کی کارروائیوں میں شدت دیکھنے کو ملی جن میں اکثر و بیشتر پاکستان میں کام کرنے والے چینی اہلکاروں اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
بلوچستان میں جاری عسکری تحریک پر نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار بتاتے ہیں کہ اسلم اچھو اور بشیر زیب نے مجید بریگیڈ کی بنیاد رکھی تھی۔
ان کے تربیتی اور اشاعتی مواد کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی یہ سوچ تھی کہ وہ کچھ مزید پیشرفت کریں کیونکہ سب سے خطرناک اقدام یہ ہی ہوتا ہے کہ آپ اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہیں پر گھس جائیں۔