جنوبی وزیرستان: اب تک امن کیوں نہیں ہوا، احتجاج کیوں جاری؟

پشاور (ڈیلی اردو/ ڈوئچے ویلے) پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان میں ہزاروں مظاہرین احتجاج کیوں کر رہے ہیں اور پاک افغان سرحد کے قریب اس خطے میں ماضی میں دہشت گردی کے خلاف درجنوں آپریشنز کے باوجود اب تک امن قائم کیوں نہیں ہو سکا؟

پاکستان میں حکومت کی جانب سے اعلان کردہ عزم استحکام نامی آپریشن کی مخالفت کیوں کی جا رہی ہے؟ صوبے خیبر پختونخوا میں بنوں اور سوات کے ساتھ ساتھ ماضی میں فاٹا کہلانے والے قبائلی اضلاع میں بھی مقامی باشندے قیام امن کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر چکے ہیں۔ اس احتجاج میں سماجی کارکنوں اور سیاسی جماعتوں کے ورکرز سمیت زندگی کے بہت سے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک رہے۔ احتجاج کا یہ سلسلہ حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف اس نئے آپریشن کے اعلان کے ساتھ شروع ہوا، جسے ‘عزم استحکام‘ کا نام دیا گیا ہے۔

عوامی احتجاج کا پس منظر

امن پاسون کے نام سے احتجاج کا یہ سلسلہ سوات سے شروع ہوا اور پھر ضلع خیبر اور دیگر اضلاع کے عوام بھی مقامی طور پر اس میں شامل ہو گئے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے۔ یہ سلسلہ اس وقت پھیلا، جب دہشت گردی کے خلاف ایک نئے آپریشن کا اعلان کیا گیا۔ ان اضلاع میں مظاہرین کا کہنا تھا کہ اس آپریشن کے باعث انہیں پھر سے علاقہ بدر کر دیا جائے گا اور وہ عارضی کیمپوں میں رہائش پر مجبور ہو جائیں گے۔

سوات سے لے کر شمالی اور جنوبی وزیرستان تک عوام ماضی میں ایسے مسلح آپریشنز سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ ابھی حال ہی میں جنوبی وزیر ستان میں وانا کے مقام پر ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اگر اس بار بھی امن قائم کرنے میں ناکام رہی، تو وہ اپنے احتجاج کے اگلے مرحلے کا اعلان کریں گے۔ جنوبی وزیرستان میں ہونے والے احتجاج کے شرکاء نے 14 نکات پر مشتمل ایک قرارداد کی حمایت بھی کی، جس میں بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات کے خاتمے اور پولیس سمیت انتظامیہ اور عدلیہ کو مستحکم بنانے کے مطالبات شامل تھے۔

قبائلی اضلاع کے عوام نئے آپریشن کے خلاف کیوں؟

صوبے خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع کے عوام قیام امن کے خواہش مند تو ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان اضلاع میں جرائم کے ساتھ ساتھ ‘اچھے اور برے‘ میں تقسیم کیے گئے طالبان کا خاتمہ بھی ہونا چاہیے، تاہم ان کے ذہنوں میں دہشت گردی کے خلاف نئے آپریشن ‘عزم استحکام‘ کے حوالے سے کئی خدشات اور تحفظات بھی ہیں۔

مقامی قبائلی عمائدین کے مطابق عوام کو خدشہ ہے کہ اس آپریشن کے باعث انہیں مزید ایک بار اپنے گھروں سے بےدخل ہونا پڑے گا اور ان کے گھر اورکاروبار بھی تباہ ہوں گے۔ ڈی ڈبلیو نے جنوبی وزیرستان میں مظاہروں میں شریک عمران نامی ایک مقامی کارکن سے جب ان کا موقف دریافت کیا، تو ان کا کہنا تھا، ”ان اضلاع کے باقاعدہ انتظامی انضمام سے قبل ہم اپنے مسائل جرگوں کے ذریعے حل کرتے تھے۔ امن کا قیام بھی مقامی جرگوں اور عمائدین کی ذمے داری تھا۔ صوبے میں باقاعدہ انضمام کے بعد یہ ذمے داری اب ریاست کی ہے۔ ہم نے جو مطالبات پیش کیے ہیں، ان میں یہ بات بھی شامل ہے کہ پولیس، مقامی انتظامیہ اور عدلیہ کی استعداد بڑھائی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ نو ماہ سے پاک افغان سرحد کی بندش سے روزگار تباہ ہو گئے ہیں۔ ”ایسے میں جب آپریشن ‘عزم استحکام‘ کا نام لیا گیا، تو لوگ مزید پریشان ہو گئے۔ ان کے بقول احتجاجی مظاہرین نے ‘عزم استحکام‘ کو مسترد کر دیا ہے، ”ہم چاہتے ہیں کہ ریاست اپنی ذمہ داری پورا کرے اور ہمارے علاقے میں بالآخر امن قائم ہو۔‘‘

قیام امن میں صوبائی گورنر کا کردار

پاکستان کے کسی بھی صوبے میں گورنر کا عہدہ وہاں وفاق کے نمائندے کا ہوتا ہے۔ صوبے خیبر پختونخوا کے ایک کے بعد دوسرے قبائلی ضلع میں جو عوامی احتجاج دیکھنے میں آ رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ مظاہرین کے بقول وفاقی حکومت ابھی تک کوئی مؤثر لائحہ عمل سامنے نہیں لا سکی۔ اسلام آباد میں وفاقی حکومت اور پشاور میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کا تعلق الگ الگ سیاسی جماعتوں سے ہونے کے باعث دونوں کے مابین شدید اختلافات ہیں جن کا خمیازہ صوبے کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے صوبے میں وفاق کے نمائندے کے طور پر خیبر پختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی سے اس سلسلے میں بات چیت کی، تو صوبائی گورنر کا کہنا تھا، ”امن و امان صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس بدامنی سے ملک دشمن بھی فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ میری بحیثیت گورنر آئین کے تحت جو ذمہ داری ہے، میں اسے پورا کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ وزیر اعظم اور ملکی سکیورٹی اداروں کے سربراہان کے ساتھ بھی اس سلسلے میں میری بات ہوئی ہے اور صوبے کے سیاسی قائدین کو وزیر اعظم نے بھی یقین دہانی کرائی ہے۔‘‘

صوبائی گورنر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہم چاہتے ہیں کہ صوبے میں امن ہو۔ قیام امن کے بعد ہی صنعتیں ترقی کرین گی، لوگوں کو روزگار ملے گا۔ عوام کے پاس روزگار ہو گا، وہ مطمئن ہوں گے، تو امن کو بھی تقویت ملے گی۔ جو رقوم وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا کی حکومت کو قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کے لیے فراہم کیں، وہ صوبائی حکومت نے اپنے حلقوں میں یا پھر قبائلی اضلاع میں خرچ کیں۔ لیکن قبائلی اضلاع میں اب بھی سہولیات کا فقدان ہے۔‘‘

جنوبی وزیرستان کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے بعد ایک فیصد ایوارڈ کے تحت مرکز نے رقوم ادا کیں۔ وہ مالی وسائل کہاں خرچ ہوئے؟ پولیس اور انسداد دہشت گردی کے اداروں کی استعداد بڑھانے کے لیے تو استعمال نہیں ہوئے۔ تو صوبائی حکومت کو بتانا چاہیے کہ وہ رقوم کہاں خرچ ہوئیں۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی کا موقف

قومی اسمبلی کے رکن ارباب شیر علی سے جب ڈی ڈبلیو نے گفتگو کی، تو ان کا کہنا تھا۔ ”ان علاقوں میں کافی فوجی آپریشن ہوئے ہیں۔ لیکن نتائج سب کے سامنے ہیں۔ امن قائم نہ ہو سکا۔ ان آپریشنوں کے نتیجے میں قبائلی عوام کا جو حشر ہوا، اس میں ان کے گھر بھی تباہ ہوئے اور کاروبار بھی۔‘‘

ارباب شیر علی کا مزید کہنا تھا کہ آپریشن صرف وہی کامیاب ہو گا، جسے عوام کی تائید حاصل ہو گی۔ عوام کا ملکی اداروں پر اعتماد بحال ہو جائے، تو ادارے امن قائم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام انتہائی تنگ آ چکے اور دلبرداشتہ ہیں۔ ”اس کا واحد حل بات چیت ہے۔ اور اس کے لیے آل پارٹیز کانفرنس ہونا چاہیے۔‘‘

سکیورٹی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

خیبر پختونخوا پولیس کے سابق انسپکٹر جنرل اختر علی شاہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ”امن قائم کرنے کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے۔ حکومت حالات ایسے پیدا کرے کہ ہر جگہ امن ہو اور ریاست کی حکمرانی ہو۔ کسی بھی مسلح گروپ کی مضبوطی کا مطلب ریاست کی کمزوری اور ناکامی ہو گا۔

اختر علی شاہ کا مزید کہنا تھا کہ قانون اورآئین کی رو سے حکومتی اداروں میں پولیس، فرنٹیئر کانسٹیبلری، سکاؤٹس اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے ادارے بھی شامل ہیں۔ حکومت آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی مدد طلب کر سکتی ہے۔ یہاں ‘ایڈ ان ایکشن‘ کا قانون بھی موجود ہے۔ کوئی علاقہ خالی کرنا یا کرا لینا اس مسئلے کا حل نہیں۔ بدامنی میں ملوث گروپوں کے پورے سلسلے کو ختم کرنا ہو گا۔ پھر اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے امن قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں، تو عوام بھی ان کی کارکردی پر داد دیں گے۔‘‘

حکومت سے نالاں سیاست دان

پاکستانی سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی ذمہ داری پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اے این پی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جنوبی وزیرستان، بنوں اور دیگر علاقوں کی طرح عوام متحد ہو جائیں، تو مسائل حل ہو جائیں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں قیام امن کے لیے سنجیدہ ہی نہیں۔ وفاقی حکومت کا ہر وقت پشاور حکومت کے ساتھ اختلاف رہتا ہے۔ سرحدوں پر امن قائم کرنا وفاقی وزارت داخلہ کی ذمے داری ہے۔ لیکن اس میں وفاقی حکومت کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘

میاں افتخار حسین کا مزید کہنا تھا کہ جب داخلہ اور خارجہ پالیسی عوام کے مفاد کے برعکس ہوں، تو امن قائم نہیں ہو گا۔ ان کے بقول خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن تو کبھی ختم ہی نہیں ہوا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پنجاب میں 70 سے زیادہ مسلح تنظیمیں ہیں، ”لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔‘‘

وزیر اعلیٰ گنڈاپور کا موقف

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ پختونوں نے امن کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں اور وہ کہیں بھی نئے آپریشن نہیں ہونے دیں گے۔

انہوں نے کہا، ”ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔ کسی کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے۔ امن کمیٹیوں کے تمام مطالبات ایپکس کمیٹی کے سامنے رکھیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت شرپسندوں کے خلاف پولیس کارروائی کرے گی اور صوبے میں مسلح گروپوں کو کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں