تہران (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی) اسلامی عسکریت پسند گروپ حماس کا کہنا ہے کہ اس کے رہنما اسماعیل ہنیہ تہران میں تنظیم کے ہیڈ کوارٹر پر ہونے والے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے۔ ایران کے پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
غزہ پر کنٹرول کرنے والے فلسطینی گروپ حماس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اس کے سرکردہ سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایک ”صہیونی حملے میں قتل” کر دیا گیا۔ وہ منگل کے روز ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔
حماس نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ”اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) اپنے عظیم فلسطینی عوام، عرب اور اسلامی قوم اور دنیا کے تمام آزاد لوگوں کے لیے سوگ منا رہی ہے۔”
واضح رہے کہ یورپی یونین امریکہ،اسرائیل، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی دیگر ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔
اس دوران حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا ہے کہ گروپ ہنیہ کے قتل کا جواب ضرور دے گا۔
حماس کے زیر انتظام الاقصیٰ ٹیلیویژن چینل کے مطابق موسیٰ ابو مرزوق نے اس حملے کو ”بزدلانہ فعل” قرار دیا اور کہا کہ یہ بغیر سزا کے نہیں رہے گا۔
ایرانی حکام کے بیان کے مطابق حملے میں ہنیہ کا ایک محافظ بھی مارا گیا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ حملے کی، ”وجوہات کی تحقیقات جاری ہیں اور جلد ہی اعلان کیا جائے گا۔”
فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے ہنیہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں سے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔
وفا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کو بزدلانہ کارروائی قرار دیتے ہوئے اسے ایک ”خطرناک پیش رفت” قرار دیا۔
محمودعباس نے اس موقع پر فلسطینیوں سے ”متحد رہنے، اسرائیلی قبضے کے مقابلے میں صبر اور ثابت قدم رہنے” پر زور دیا۔
اسرائیل پر قتل کا الزام
سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد اسرائیل نے فلسطینی گروپ حماس کو ”کچلنے” کے اپنے عزم کا اظہار کیا تھا۔ اس حملے میں 1200 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد سے حماس کے خلاف اس کی جنگ جاری ہے۔
تاہم اس تازہ واقعے کے حوالے سے اسرائیل کی جانب سے اب تک کوئی بیان یا رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
رواں برس اپریل میں اسماعیل ہنیہ کے تین بیٹے اور ان کے چار پوتے بھی غزہ میں ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔
اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے خبر رساں ادارے اے ایف پی اور سی این این سمیت کئی میڈیا اداروں سے بات چیت میں کہا کہ وہ ہنیہ کی موت سے متعلق غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس کا جواب نہیں دیں گے۔
اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
اسرائیل کے خلاف ایک بڑی مزاحمت کے پس منظر میں اسماعیل ہنیہ نے سن 1987 میں حماس میں شمولیت اختیار کی تھی، جب اس گروپ کے قیام عمل میں آیا تھا۔
سن 2006 میں وہ فلسطین کے وزیر اعظم بنے، حالانکہ حریف دھڑوں کو ان کے عہدے کے جواز پر اختلاف تھا۔ سن 2017 میں انہیں حماس کے سیاسی بیورو کا رہنما منتخب کیا گیا تھا۔
وہ سن 2016 سے ہی قطر اور ترکی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ اس کے بعد سے ان کے مختلف فلسطینی دھڑوں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے۔ حالیہ مہینوں میں انہوں نے سفارتی مشنوں کے تحت چین، ایران اور ترکی کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔
ایران کا دورہ آخری ثابت ہوا
اسماعیل ہنیہ کو آخری بار منگل کے روز ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب کے موقع پر دیکھا گیا تھا۔ انہوں نے نئے صدر کے ساتھ ہی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی تھی۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات کے دوران ایرانی صدر نے حماس کے رہنما سے کہا تھا کہ ایران ”فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہے گا۔” اس پر اسماعیل ہنیہ نے ایران کے ”پروقار موقف” کا شکریہ ادا کیا تھا۔