تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) فلسطین کی عسکری تنظیم حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پہلے سے ہی تنازع میں گھرے خطے میں مزید کشیدگی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران میں موجود تھے جب وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔ حماس اور ایرانی حکام نے فوری طور پر اس حملے کا الزام اسرائیل پر لگایا۔
جمعرات کو جب اسماعیل ہنیہ کی نمازِ جنازہ تہران یونیورسٹی میں ادا کی گئی تو اس میں ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور صدر مسعود پزشکیان بھی شریک تھے۔
آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس حملے پر اسرائیل کو سخت سبق سکھانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ایرانی رہبرِ اعلیٰ کا کہنا ہے کہ چونکہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایران میں ہوا ہے اس لیے وہ ان کے خون کا بدلہ لینا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔
رواں سال اپریل میں اسرائیل اور ایران اس وقت جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے جب شام میں اسرائیلی فضائی حملے میں ایران کے ایک اعلیٰ کمانڈر مارے گئے تھے۔
اس حملے کے بعد ایران کی جانب سے اسرائیل پر سینکڑوں ڈرون اور راکٹ فائر کیے گئے تھے جبکہ اسرائیل نے جوابی حملے میں وسطی ایران کے شہر اصفہان کے فوجی ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا تھا۔
حالیہ برسوں میں اسماعیل ہنیہ نے ایران کے متعدد دورے کیے تھے جس میں انھوں نے ایران کے رہبرِ اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ حکام سے باقاعدگی سے ملاقاتیں کی تھیں۔
اسماعیل ہنیہ کے علاوہ اسلامی جہاد کے رہنما، لبنان کی حزب اللہ کے سینیئرکمانڈر اور یمنی حوثیوں کے ایک اعلیٰ رہنما بھی ایرانی صدر کی تقریبِ حلف برداری میں پہلی صف میں موجود تھے۔
تقریب سے قبل ان سب نے آیت اللہ خامنہ ای سے بھی ملاقاتیں کی تھیں جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا تھا۔
ایران کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہنیہ اور ان کا محافظ شمالی تہران کے ایک گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے جب مقامی وقت کے مطابق رات دو بجے انھیں ایران کی فضائی حدود کے باہر سے فائر کیے گئے میزائل سے نشانہ بنایا گیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ پچھلی دہائی میں ہونے والے ایرانی جوہری سائنسدانوں کے قتل کے پیچھے بھی اسرائیل کا ہاتھ تھا لیکن یہ پہلی بار ہے کہ اسرائیل نے کسی ممتاز سیاسی رہنما کو نشانہ بنایا ہے۔
ہنیہ کا قتل نہ صرف ایران کے لیے شرمندگی کا باعث ہے بلکہ یہ اس کی سکیورٹی ایجنسیوں کی صلاحیتوں پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
سابق ایرانی انٹیلی جنس وزیر علی یونسی نے تین سال قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ایران میں اسرائیلی دراندازی اتنی گہری ہو چکی ہے کہ تمام حکومتی اہلکاروں کو اپنی جانوں کا خوف ہونا چاہیے۔
حالانکہ ایرانی انٹیلی جنس کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں موجود اسرائیلی نیٹ ورکس کو باقاعدگی سے نشانہ بنا رہے ہیں۔
اب آگے کیا ہو گا؟
مسعود پزیشکیان نے فلسطین کی حمایت کرنے کے بعد کہا تھا کہ ان کی حکومت متوازن اور ہم آہنگ خارجہ تعلقات کے ذریعے قومی مفادات اور عالمی امن و سلامتی کو برقرار رکھے گی۔
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت نے ان کے ان منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے کم از کم فی الحال کے لیے۔ ایران کے ایک ایسے صدر جو بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کو ٹھیک کرنے کے خواہشمند ہیں کے ساتھ ایران اسرائیل کے خلاف پورے پیمانے پر حملہ کرنے میں ہچکچا سکتا ہے۔
لیکن اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت نے اسرائیل غزہ تنازعے میں جنگ بندی اور امن مذاکرات کی کوشش پر بہت اثر ڈالا ہے اور اس تنازعے میں اب تک حماس کے زیر انتظام فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 39,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی، جو اسرائیل اور حماس کے درمیان اہم ثالث ہیں نے کہا کہ ہنیہ کے قتل نے مذاکرات کی سنجیدگی پر سمجھوتہ کیا ہے، کیونکہ وہ مذاکرات میں حصہ لینے والی ایک اہم شخصیت تھے۔
مگر کیا یہ سب خطے میں ایک ہمہ گیر جنگ کا باعث بنے گا؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس وقت کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا۔ لیکن جنگیں ہمیشہ سوچے سمجھے خطرات کا نتیجہ نہیں ہوتیں۔
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بعد فوری تشویش یہ ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہو گا اور یہ کیا شکل اختیار کر سکتا ہے اور اس طرح کے ردعمل کا خطے میں تناؤ کا کیا مطلب ہو گا۔
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل کے جنوبی بیروت میں لبنان کی حزب اللہ کے سب سے سینئر فوجی کمانڈروں میں سے ایک کو ہلاک کرنے کے دعوے کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے۔
اب ایران بھی خطے میں موجود اپنی پراکسی ملیشیا کو اسرائیل پر حملوں کا کہہ سکتا ہے۔ پہلے ہی خطے کے مبصرین کا ماننا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی ایک نیا رخ اختیار کر سکتی ہے اور فریقین میں براہ راست جنگ چھڑنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔
ایران کے نئے صدر
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت اس وقت ہوئی جب وہ ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے بعد ایران میں موجود تھے۔
مسعود پزشکیان کو نسبتاً ایک اعتدال پسند ایرانی صدر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جنھوں نے بیرونی دنیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر کرنے کا عہد کیا ہے۔
انھوں نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت پر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ کل وہ ان کے ساتھ پارلیمنٹ میں ان کا ہاتھ اوپر اٹھا رہے تھے اور آج وہ ان کے جنازے کو کندھا دے رہے ہیں۔
https://x.com/drpezeshkian/status/1818549280694477182?t=id0rnU4lJYsY1XQZLFBlNQ&s=19