یروشلم (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) اسرائیل کی فوج نے دعویٰ کیا ہے کہ جولائی میں خان یونس کے المواسی کیمپ پر کیے گئے حملے میں حماس کے ملٹری چیف محمد ضیف کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق جمعرات کو اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جینس جائزوں کے مطابق یہ تصدیق کی جا سکتی ہے کہ محمد ضیف مارے گئے ہیں۔
تیرہ جولائی کو المواسی کیمپ پر اسرائیل کے حملے میں درجنوں فلسطینی مارے گئے تھے۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا تھا کہ حماس کے دہشت گرد اس کیمپ میں چھپے ہوئے تھے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بدھ کو ایران کے دارالحکومت تہران میں حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایک حملے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ حماس نے اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے اس معاملے پر تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
محمد ضیف سے متعلق دعوے پر اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے ‘ایکس’ پر اپنے بیان میں کہا کہ یہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں اہم ‘سنگِ میل’ ہے۔ اس آپریشن کی کامیابی یہ ظاہر کرتی ہے کہ حماس بطور تنظیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
حماس نے جولائی میں اسرائیلی کارروائی میں محمد ضیف کے بچ نکلنے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم اسرائیلی فوج کی جانب سے اُن کی ہلاکت کے دعوے پر حماس کا تاحال کوئی ردِعمل نہیں آیا ہے۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ محمد ضیف اور حماس رہنما یحییٰ السنوار گزشتہ برس سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے ماسٹر مائنڈ تھے۔ یحییٰ السنوار بھی اسرائیل کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس کے دو سینئر ترین رہنماؤں کی ہلاکت اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کی بڑی کامیابی ہے۔ نیتن یاہو کا یہ مؤقف رہا ہے کہ حماس کی عسکری صلاحیتوں کے مکمل خاتمے تک غزہ میں جنگ جاری رہے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دو اہم رہنماؤں کی ہلاکت سے حماس جنگ بندی مذاکرات پر سخت پوزیشن لے سکتی ہے جب کہ یہ خطرہ بھی ہے کہ وہ ان مذاکرات سے دست بردار ہو جائے۔ دوسری جانب ایران نے بھی اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تیرہ جولائی کو کی گئی اس کارروائی میں اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے حماس کی القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد ضیف اور خان یونس بریگیڈ کے کمانڈر رفع سلامہ کو نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ المواسی کیمپ اسرائیلی فوج کی جانب سے ہی محفوظ علاقہ قرار دیا گیا تھا جہاں فلسطینیوں کو منتقل ہونے کے کئی احکامات جاری کیے گئے تھے۔
محمد ضیف کون تھے؟
محمد ضیف کا شمار حماس کے ملٹری ونگ القسام بریگیڈ کے بانیوں میں ہوتا تھا۔ وہ کئی دہائیوں تک اس یونٹ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں القسام بریگیڈ نے اسرائیل میں بسوں، کیفیز پر درجنوں خود کش حملوں کیے۔ محمد ضیف کی قیادت میں القسام بریگیڈ نے اسرائیل کے اندر کئی کلو میٹر تک مار کرنے والے راکٹ بھی تیار کیے۔
محمد ضیف کا اصل نام محمد مصری ہے۔ وہ 1965 میں خان یونس کے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے جو 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد قائم کیا گیا تھا۔
انہوں نے 1987 میں فلسطینیوں کی دوسری مزاحمت یا انتفادہ کے دوران حماس کی تشکیل کے بعد اس میں شمولیت اختیار کی اور تبھی محمد ضیف کا نام اختیار کیا۔
حماس کے ذرائع کے مطابق محمد ضیف 1989 میں اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور 16 ماہ تک قید میں رہے۔
ضیف نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری حاصل کی جہاں انہوں نے فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کے مضامین پڑھے۔ دورِ طالب علمی میں ضیف کو آرٹس سے بھی دل چسپی تھی۔ وہ یونیورسٹی کی انٹرٹینمنٹ کمیٹی کے سربراہ رہے اور اسٹیج پر کامیڈی بھی کرتے تھے۔
حماس میں ضیف نے تیزی سے ترقی کی۔ انہوں نے غزہ میں سرنگوں کا جال بچھایا اور بم بنانے کی مہارت بھی حاصل کی۔ گزشتہ دہائیوں کے دوران وہ اسرائیل کو مطلوب ترین افراد کی فہرست میں شامل ہوئے۔ اسرائیل انہیں خود کُش دھماکوں میں اپنے درجنوں شہریوں کی ہلاکت کا ذمے دار قرار دیتا۔
غزہ میں وہ ایک پراسرار شخصیت کے طور پر پسِ پردہ رہے اور کبھی بھی عوام میں نظر نہیں آئے۔ اُن کی بہت کم تصاویر اور آڈیو بیانات سامنے آئے جب کہ وہ اسرائیل کی جانب سے کیے گئے کئی حملوں میں بال بال بچتے بھی رہے۔
حماس کے ذرائع کے مطابق اسرائیل کے قاتلانہ حملوں میں ضیف ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے محروم ہو چکے تھے۔
سال 2014 میں اسرائیل کے ایک حملے میں محمد ضیف کی بیوی، سات ماہ کا بیٹا اور تین برس کی بیٹی ہلاک ہو گئے تھے۔
اسرائیل اور حماس کا حالیہ تنازع سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا جس میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیل کی جوابی کارروائیوں میں حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اب تک 39 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔