تہران (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/اے پی) حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تہران یونیورسٹی میں پڑھائی۔ اس کے بعد ان کی میت کو تدفین کے لیے دوحہ پہنچایا جانا تھا۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ آج یکم اگست بروز جمعرات ایران میں ادا کر دی گئی، جس کے بعد ان کی میت کو تدفین کے لیے قطری دارالحکومت دوحہ پہنچایا جا رہا ہے۔
ایرانی پاسداران انقلاب نے کل ہنیہ کی ہلاکت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہنیہ اور ان کا ایک محافظ رات کے دو بجے تہران میں ان کی قیام گاہ پر ہونے والے ایک حملے میں مارے گئے تھے۔ ہنیہ نو منتخب ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران گئے تھے۔
اسماعیل ہنیہ کی نماز جنازہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے پڑھائی۔ اس موقع پر نومنتخب ملکی صدر پزشکیان بھی ان کے ہمراہ تھے۔ اس اجتماع میں موجود خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے کے مطابق ہنیہ کی نماز جنازہ تہران یونیورسٹی میں ادا کی گئی، جہاں ہزاروں افراد ہنیہ کی تصاویر والے پوسٹر اور فلسطینی پرچم لیے ہوئے جمع تھے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی سے نماز جنازہ کے بعد ہنیہ کی میت کو ایک ٹرک میں تہران کے آزادی اسکوائر کی طرف لے جانے کے مناظر بھی نشر کیے گئے، جن میں لوگوں کو ان کی میت پر پھول نچھاور کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔
ایرانی حکومت ہنیہ کی ہلاکت کا ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرا رہی ہے، تاہم اب تک اس بارے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
دوسری جانب ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے خبردار کیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل پر ”سخت سزا‘‘ دی جائے گی۔ ان کے بقول ہنیہ کے قتل کا بدلہ لینا ”تہران کا فرض‘‘ ہے کیونکہ ”یہ قتل ایرانی دارالحکومت میں‘‘ ہوا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھنے کے خدشات اور زیادہ ہو گئے ہیں۔
غزہ کی جنگ کی وجہ سے پہلے ہی مشرق وسطیٰ کے خطے میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ پٹی میں اسرائیل کی بڑی فضائی اور زمینی فوجی کارروائیوں کا آغاز ہوا تھا۔
اب حماس کے رہنما ہنیہ کی ہلاکت کے بعد بین الاقوامی سطح پر خطے میں کشیدگی کم کرنے اور غزہ میں ایک مجوزہ سیز فائر پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔