بلوچستان: گوادر میں دھرنے کے شرکا اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات جاری،احتجاج کو تاحال ختم نہیں کیا جا سکا

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کے دھرنے کے شرکا اور انتظامیہ کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے تاہم گوادر میں دھرنے اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں جاری احتجاج کو تاحال ختم نہیں کیا گیا ہے۔

محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک اہلکار کے مطابق حکومت مذاکرات کے ٹی او آر میں آئین کا آرٹیکل 16 ڈالنا چاہتی ہے جس کو تاحال بلوچ یکجہتی کمیٹی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کو مطالبات تسلیم کرنے کے حوالے سے حکومت کی جانب سے نوٹیفیکیشن کا انتظار ہے۔

یاد رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا احتجاج پچھلے چند روز سے گوادر سمیت بلوچستان کے محتلف حصوں میں گزشتہ پانچ روزسے جاری ہے۔

27 جولائی سے جاری احتجاج کے باعث مکران ڈویژن میں لوگوں کا کہنا ہے کہ شاہراہوں کی بندش سے گوادر سمیت ڈویژن کے دیگر علاقوں میں خوراک کی اشیا کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

مذاکرات کے بارے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماوں اور سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟

گزشتہ شب گوادر میں ڈپٹی کمشنر گوادر حمود الرحمان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی منتظم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماوں کے درمیان مذاکرات ہوئے۔

ان مذاکرات کے بعد محکمہ داخلہ کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ ملاقات کے دوران مزاکرت میں حق دو تحریک کے چیئرمین حسین واڈیلا،بی این پی مینگل کے ماجد سہرابی،جے یوآئی کے مولاناعبدالحمید سمیت دیگر رہنماء ثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں۔

ان کے مطابق خود بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو بھی گزشتہ چار روز سے گوادر میں ہیں۔

مذاکرات کے حوالے سے وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ مظاہرین نے جو مطالبات سامنے رکھے ہیں آئین اور قانون کے تحت ان پر عمل درآمد کیا جائے گا اور ہر مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر کے لوگ ہمارے ہی لوگ ہیں حکومت کو انکی مشکلات اورمسائل کا بخوبی ادراک ہے۔

انھوں نے کہا کہ گوادر کے مسائل کے حل کے لیے حکومت سنجیدگی سے اقدامات اٹھا رہی ہے۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ویڈیو بیان میں مذاکرات کے بارے میں کیا کہا؟

موبائل فون سروس کی بندش کی وجہ سے گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماوں سے ان مذاکرات کے بارے میں رابطہ نہیں ہوسکا تاہم مذاکرات کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی منتظم ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ایک ویڈیو بیان جاری کیا تھا۔

اس بیان کے مطابق

* گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کی مناسبت سے جتنے بھی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں یا اٹھائے گئے ہیں ان تمام کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف ایف آئی آر ختم کی جائیں۔

* بلوچستان میں حکومت نے جو بھی راستے بند کیے ہیں ان سب کو کھولا جائے۔

* گوادر میں لوگوں کو ہراساں کرنے، ان کے گھروں پر چھاپوں اور ان کو اٹھانے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

* مطالبات کے تسلیم ہونے کے نوٹیفیکشن کے اجرا اور تمام گرفتار اور اٹھائے جانے والے افراد کی رہائی تک گوادر میں پر امن دھرنا جاری رہے گا۔

* بلوچ یکجہتی کمیٹی ٹی او آر میں آئین کے آرٹیکل 16کو شامل کرنے ماننے کے لیے تیار نہیں۔

گزشتہ شب جب گوادر میں ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماوں کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تو محکمہ داخلہ کے ایک اہلکار نے دعویٰ کیا کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں اور دھرنا ختم کیا جائے گا۔ تاہم ابھی تک دھرنا ختم نہیں ہوا ہے جبکہ کوئٹہ، تربت اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ’بلوچ قومی اجتماع‘ ساحلی شہر گوادر میں منعقد کیے جانے کے اعلان پر حکومت کی جانب سے اجازت نہ مل سکی تھی اور جس کے بعد سے احتجاج اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

‎گوادر شہر کو جانے والی تمام شاہراہوں بند ہونے کے علاوہ گوادر میں موبائل فون سروس کے علاوہ پی ٹی سی ایل کے فون بھی کام نہیں کر رہے۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور دیگر حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پر امن احتجاج حکومت کا حق ہے تاہم احتجاج جگہ کہاں ہوگا اس کا تعین حکومت کا حق ہے اور شہریوں کو حکومت کا یہ حق تسلیم کرنا ہوگا۔

کھانے پینے کی اشیا کی قلت

ایران سے متصل پنجگور کے سینیئر صحافی برکت مری نے بتایا کہ مسلسل پانچ روز کی ہڑتال اور راستوں کی بندش کی وجہ سے پنجگور میں خوراکی اشیاء کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان نے کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ گوادر کے تمام راستے بند ہونے کی وجہ سے وہاں بھی خوراکی اشیا کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

انھوں نے گوادر میں لوگوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف بطور احتجاج سرفراز بگٹی کی حکومت کی حمایت ترک کرکے بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی بینچوں پر بیٹھنے کا اعلان کیا۔

اگرچہ انتظامیہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان گوادر میں مذاکرات کا آغاز ہوگیا ہے تاہم دوسری جانب کوئٹہ اور بلوچستان کے متعدد دیگر علاقوں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

’بلوچ قومی اجتماع‘ کے انعقاد کے کیا مقاصد ہیں؟

‎’بلوچی قومی اجتماع‘ کے انعقاد کا اعلان کئی ہفتوں پہلے یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور صبغت اللہ بلوچ عرف شاہ جی نے کیا تھا۔

‎اس میں افغانستان اور ایران سے تعلق رکھنے والےبلوچوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

‎ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے الزام عائد کیا کہ بلوچوں کی نسل کشی کے علاوہ ہزاروں افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا جا رہا ہے۔

‎ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے علاوہ ان کے وسائل پر بھی قبضہ کیا جارہا ہے۔

‎انھوں نے کہا کہ اس پُرامن اجتماع کے انعقاد کا مقصد ان اقدامات کی روک تھام کے لیے ایک لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں