لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل پر 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ تاحال جاری ہے اور اس دوران اسماعیل ہنیہ سمیت حماس کے متعدد رہنما مارے جا چکے ہیں۔
حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ ایران کے دارالحکومت تہران میں نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے موجود تھے جب وہ ایک فضائی حملے میں مارے گئے۔
ایران نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے تاہم اسرائیل کی جانب سے تاحال اس دعوے کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی عسکری سرگرمیوں کے سربراہ محمد الضیف کی گذشتہ ماہ غزہ کی پٹی میں ایک فضائی حملے میں ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔
القسام بریگیڈ کے قائد محمد الضیف کو 13 جولائی کو خان یونس کے علاقے المواسی میں ایک عمارت پر حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا تاہم حماس نے ابھی تک ان کی موت کی بھی تصدیق نہیں کی۔
غزہ میں اسرائیل اور حماس سمیت دیگر فلسطینی مسلح دھڑوں کے درمیان جنگ اس وقت سے جاری ہے جب مولوی احمد یاسین نے سنہ 1987 میں حماس کی بنیاد رکھی تھی۔
اس تنظیم کے قیام کے بعد سے اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک محاذ آرائی شروع ہوئی جس نے تشدد، قتل و غارت اور خودکش حملوں کے سلسلے کو جنم دیا۔
حماس نے اسرائیل کے اندر درجنوں خودکش کارروائیاں کیں۔ پہلے انتفادہ کے دوران سینکڑوں اسرائیلی ہلاک ہوئے جو سنہ 1987 میں غزہ کی پٹی میں اس وقت شروع ہوا جب یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں تھا۔
یہ تحریک مغربی کنارے تک پھیل گئی اور سنہ 1993 میں اس وقت رُکی جب اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔
دوسرا انتفادہ سنہ 2000 میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوا، یہ پہلے انتفادہ سے زیادہ خونی اور پرتشدد تھا، جس میں دونوں طرف کے تقریباً چار ہزار 200 افراد مارے گئے۔
فلسطینی مزاحمت کے ابھرنے کے بعد ہی سے اسرائیل نے فلسطینی دھڑوں کے کارکنوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس دوران حماس کے درجنوں رہنما قتل ہوئے۔
یہ کارروائیاں اسرائیل اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے درمیان امن مذاکرات کے دوران عارضی طور پر روک دی گئی تھیں۔
اسرائیل نے گذشتہ صدی میں نوے کی دہائی کے آغاز سے حماس کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ختم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر قاتلانہ کارروائیاں کی ہیں اور اس نے تحریک کے سیاسی اور فوجی حکام میں کوئی فرق نہیں کیا۔
اس رپورٹ میں حماس سے منسلک ان شخصیات کا ذکر ہے جنھیں قتل کیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ
ایران میں میں مارے جارنے والے اسماعیل عبدالسلام ہنیہ کو عبدالعبد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ وہ ایک فلسطینی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہوئے تھے۔
پہلے انتفادہ کے دوران ایک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کرنے کی بنا پر انھیں اسرائیل حکام نے گرفتار کر لیا تھا۔ 1988 میں حماس منظرِ عام پر آگئی اور اسماعیل ہنیہ کو چھ مہینے قید کی سزا ہو گئی۔
اس سے اگلے برس 1989 میں اسماعیل ہنیہ ایک مرتبہ پھر گرفتار کیے گئے اور انھیں مزید تین سال قید کی سزا سنائی گئی۔ انھیں بعد میں حماس کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ غزہ سے بے دخل کیا گیا اور لبنان بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد اسماعیل ہنیہ تقریباً ایک برس تک جلا وطن رہے۔
تاہم وہ ایک سال بعد غزہ لوٹ آئے۔ اسماعیل ہنیہ کو 1997 میں شیخ احمد یاسین کے دفتر کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا۔
16 فروری سنہ 2006 میں حماس نے انھیں فلسطین کے وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا اور اسی ماہ کی 20 تاریخ کو انھوں نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔
سنہ 2006 میں اسرائیلی فوج کے ہیلی کاپٹروں نے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ کے دفاتر کو نشانہ بھی بنایا۔ اس حملے میں تین محافظ زخمی ہوئے لیکن اسماعیل ہنیہ اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔
اسماعیل ہنیہ نے اس عمل کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت فلسطینی عوام کے لیے کام کرتی رہے گی۔
اسماعیل ہنیہ نے سولہ سال کی عمر میں اپنی کزن امل ہنیہ سے شادی کی اور ان کے 13 بچے تھے جن میں آٹھ بیٹے اور پانچ بیٹیاں شامل ہیں۔
ان کے آٹھ بیٹوں میں سے تین بیٹے، چار پوتے اور پوتیاں 10 اپریل 2024 کو غزہ کی پٹی پر عید کے دن ہونے والے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔
عماد عقل
عماد حسن ابراہیم عقل 19 جون سنہ 1971 کو شمالی غزہ پٹی کے جبالیہ مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کیمپ کی ’شہدا‘ مسجد میں بطور مؤذن مقرر تھے۔
1988 میں اسرائیلی حکام نے انھیں حماس سے تعلق کے الزام میں ڈیڑھ سال کے لیے گرفتار کیا تھا۔ جیل سے نکلنے کے بعد وہ اپنی سابقہ سرگرمیوں کی طرف واپس آ گئے اور 1990 میں ڈیڑھ ماہ کے لیے دوبارہ گرفتار ہوئے۔
اس کے بعد وہ حماس سے وابستہ ’عزالدین القسام بریگیڈز‘ کی صفوں میں شامل ہو گئے۔
اس کے بعد عماد عقل نے مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں شرکت کی۔
انھوں نے درجنوں عسکری آپریشنز کیے اور فوجیوں اور آباد کاروں سمیت 14 افراد کو ہلاک کیا۔ وہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز کو مطلوب نمبر ایک شخص بن گئے تھے۔
24 نومبر 1993 کو اسرائیل کے فوجی اہلکاروں نے غزہ کے علاقے شجاعیہ محلے میں واقع ایک مکان کو گھیرے میں لیا جہاں عماد عقل چھپے ہوئے تھے۔
اس کارروائی کے دوران حماس کے رہنما نے فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اسرئیلی سکیورٹی فورس نے انھیں اور ان کے ایک معاون کو قتل کردیا۔
حماس نے 2009 میں عماد عقل کی زندگی پر ایک فلم بنائی تھی جس کا عنوان تھا ’عماد عقل: مزاحمت کی کہانی۔‘
یحییٰ عیاش
یحییٰ عیاش کا شمار عزالدین القسام بریگیڈز کے سب سے نمایاں اور اہم عسکری رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھیں اسرائیل نے قتل کیا۔ ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ اسرائیل کے اندر خودکش کارروائیوں، بم دھماکوں اور درجنوں اسرائیلیوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔
یحییٰ عیاش سنہ 1966 میں شمالی مغربی کنارے میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے بيرزيت یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
یحییٰ عیاش پر جن اہم ترین کارروائیوں کا الزام عائد کیا گیا تھا ان میں 6 اپریل 1994 کو افولا شہر میں ہونے والا ایک کار بم دھماکہ شامل تھا جس میں آٹھ اسرائیلی مارے گئے تھے۔
یہی نہیں 13 اپریل 1994 کو حدیرہ شہر میں ہونے والے خودکش آپریشن کی ذمہ داری بھی ان ہی پر عائد کی گئی تھی اور اس آپریشن میں سات اسرائیلی ہلاک ہوئے۔
کہا جاتا ہے کہ ان کی جانب سے کیے گئے ایک اور آپریشن میں 19 اکتوبر 1994 کو 22 اسرائیلی مارے گئے تھے۔
یحییٰ عیاش 1994 کے آخر میں غزہ چلے گئے کیونکہ اسرائیل کی جانب سے ان کا تعاقب کیا جا رہا تھا۔ اسرائیلی سکیورٹی سروس نے 1996 کے اوائل میں یحییٰ عیاش کو اس وقت دھماکے سے اڑا دیا جب وہ فون پر اپنے والد سے بات کر رہے تھے۔ انھیں ان کی آواز سے پہچانا گیا تھا۔
جمال سلیم اور جمال منصور
31 جنوری سنہ 2001 کو اسرائیلی طیاروں نے مغربی کنارے کے شہر نابلس میں حماس کے میڈیا اینڈ سٹڈیز کے دفتر پر بمباری کی جس میں تنظیم کے رہنما جمال منصور اور جمال سلیم ہلاک ہوئے۔
جمال منصور 1960 میں مغربی کنارے کے بلتا پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے اور انھیں مغربی کنارے میں حماس کے بانیان میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے النجاہ یونیورسٹی میں حماس کی سربراہی کی۔ اس سے قبل وہ ہائی سکول میں اخوان المسلمون میں شامل ہو چکے تھے۔
جمال منصور کو پہلے انتفادہ کے دوران اور دوران تعلیم دس سے زائد مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے ان کی رہائی کے بعد دسمبر 1992 میں انھیں حماس اور اسلامی جہاد کے سینکڑوں کارکنوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں مرج الظہور بھیج دیا۔
فلسطینی اتھارٹی نے انھیں 1997 میں گرفتار کیا اور وہ 2000 میں دوسری انتفادہ شروع ہونے تک جیل میں رہے۔
جمال سلیم سنہ 1958 میں نابلس شہر کے عین بیت الماء کیمپ میں پیدا ہوئے اور 1982 میں اردن یونیورسٹی سے اسلامی شریعت کی ڈگری حاصل کی۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ نابلس میں استاد کے طور پر کام کرنے کے لیے مغربی کنارے واپس آئے۔ وہ 1987 میں حماس کے قیام کے بعد اس کی صفوں میں شامل ہو گئے تھے۔
انھوں نے نابلس میں انجمن فلسطینی علما کے سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا لیکن اسرائیل نے جلد ہی انھیں جنوبی لبنان میں مرج الظہور جلاوطن کر دیا۔
محمود ابو ہنود
محمود ابو ہنود سنہ 1967 میں مغربی کنارے کے ضلع نابلس میں پیدا ہوئے۔ وہ مغربی کنارے میں قسام بریگیڈز کے کمانڈر تھے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق ابو ہنود 23 نومبر 2001 کو ایک کار میں سفر کر رہے تھے اور اسی وقت ایک جنگی طیارے نے انھیں میزائل سے نشانہ بنایا۔
ابو ہنود نے 1985 میں القدس یونیورسٹی سے اسلامی شریعت میں بی اے کیا تھا، اپنی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی وہ شمالی مغربی کنارے میں قسام بریگیڈز کے کمانڈر کا عہدہ سنبھال چکے تھے۔
ابو ہنود نے 1997 میں اسرائیلیوں کے خلاف کئی کارروائیوں اور خودکش حملوں میں حصہ لیا اور اسرائیل کو مطلوب ترین افراد میں سے ایک بن گئے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ابو ہنود نے سنہ 1997 میں یروشلم میں دو مہلک حملوں میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جس میں 21 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسرائیلی فوج نے سنہ 2000 میں مغربی کنارے کے قصبے عسیرہ میں ایک گھر کے اندر انھیں گھیر لیا تھا تاہم وہ اسرائیلی فوج سے لڑنے کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس دوران تین اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے بعد ابو ہنود کو فلسطینی اتھارٹی نے گرفتار کیا اور حماس سے تعلق کے الزام میں 12 سال قید کی سزا سنائی۔
ابو ہنود بھی سنہ 1992 میں مرج الظہور بھیجے جانے والوں میں شامل تھے۔
صلاح شہادہ
صلاح شہادہ کو حماس کے عسکری ونگ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ 1987 میں حماس کے قیام کے اعلان سے تین سال قبل انھوں نے ’فلسطینی مجاہدین‘ کے نام سے ایک گروپ بنایا تھا جس نے اسرائیل کے خلاف متعدد کارروائیاں کیں۔
صلاح شہادہ اس تنظیم کے سربراہ رہے۔ ان کا گروپ سنہ 1991 میں عزالدین القسام بریگیڈ میں شامل ہو گيا۔
صلاح شہادہ سنہ 1952 میں غزہ کی پٹی کے کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اسکندریہ کے ہائر انسٹیٹیوٹ آف سوشل سروس سے ڈگری حاصل کی اور 1979 تک عریش میں سماجی محقق کے طور پر کام کیا۔
غزہ واپسی پر وہ سماجی امور کے انسپکٹر کے عہدے پر فائز رہے۔ انھوں نے جلد ہی یہ نوکری چھوڑ دی اور 1986 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی میں ملازمت کرنے چلے گئے۔
پہلے انھیں 1984 میں اور پھر 1988 میں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ ان پر حماس کا ملٹری ونگ بنانے اور دو اسرائیلی فوجیوں کو اغوااور قتل کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
انھیں دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اپنی سزا پوری کرنے کے بعد وہ بیس ماہ تک انتظامی حراست میں رہے اور بالآخر مئی 2000 میں جیل سے رہا ہوئے۔
شہادہ کی جیل سے رہائی کے بعد وہ روپوش ہو گئے اور گرفتاری یا قاتلانہ حملے سے بچنے کے لیے اپنی رہائش گاہ بدلتے رہے لیکن اسرائیل نے 22 جولائی 2002 کو انھیں ڈھونڈ نکالا اور ایک جنگی طیارے سے ایک ٹن سے زیادہ وزنی بم ایک مکان پر گرایا گيا۔
اس حملے میں صلاح شہادہ اور ان کی اہلیہ کے ساتھ قسام بریگیڈز کے رہنما ظاہر نصر سمیت 18 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسماعیل ابو شنب
اسماعیل ابو شنب کا شمار حماس کے بانیوں اور ممتاز رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے پہلی انتفادہ کے دوران حماس کی قیادت کرنے کے الزام میں دس سال سے زیادہ اسرائیلی جیلوں میں گزارے۔
ابو شنب 1950 میں غزہ کے نصیرت کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1975 میں مصر کی منصورہ یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ میں بیچلزر کی ڈگری حاصل کی اور پھر 1982 میں امریکہ کی کولوراڈو یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔
امریکہ سے واپسی کے بعد انھوں نے غزہ میں فلسطینی انجینیئرز ایسوسی ایشن کی قیادت سنبھالی۔ انھیں 1989 میں اسرائیل نے گرفتار کیا اور 1997 تک وہ جیل میں رہے۔
ابو شنب کو 1976 میں غزہ میں ’اسلامک سوسائٹی‘ کے بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، انھوں نے دو ادارے بھی بنائے جہاں سے 1987 میں حماس ابھری۔
انھوں نے فلسطینی اتھارٹی اور دیگر فلسطینی دھڑوں کے ساتھ کئی ملاقاتوں میں حماس کی نمائندگی بھی کی۔
اسرائیل نے 21 اگست 2003 کو ایک فوجی ہیلی کاپٹر سے ان کی گاڑی پر پانچ میزائل داغے اور اس حملے میں اسماعیل ابو شنب ہلاک ہوگئے۔
احمد یاسین
22 مارچ 2004 کو اسرائیل نے جنگی طیاروں سے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین پر حملہ کیا اور وہ اس آپریشن میں مارے گئے۔
شیخ یاسین 1938 میں برطانیہ کے زیرِ اہتمام فلسطین میں پیدا ہوئے تھے۔ جوانی میں ایک حادثے میں مفلوج ہونے کے بعد انھوں نے اپنی زندگی اسلامی علوم کے لیے وقف کر دی۔
شیخ یاسین نے اخوان المسلمون کے فلسطینی ونگ میں شمولیت اختیار کی، لیکن وہ 1987 میں شروع ہونے والی پہلی فلسطینی انتفادہ تک مشہور نہیں ہوئے۔
وہ حماس کے قیام کے بعد ہی لوگوں کی نظر میں آئے۔
اسرائیلیوں نے انھیں 1989 میں گرفتار کیا اور عمر قید کی سزا سنائی کیونکہ انھوں نے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کرنے والے ایک شخص کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
6 ستمبر 2003 کواسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے غزہ میں ایک اپارٹمنٹ کو نشانہ بنایا لیکن شیخ یاسین زندہ بچنے میں کامیاب ہوگئے۔
چھ ماہ بعد 14 مارچ 2004 کو غزہ میں قسام بریگیڈ کے دو ارکان نے اسرائیلی بندرگاہ پر ایک آپریشن کیا جس میں 10 اسرائیلی ہلاک اور 20 زخمی ہوئے۔
اسرائیل نے شیخ یاسین کو ذاتی طور پر اس کارروائی کا ذمہ دار ٹھہرایا اور 22 مارچ 2004 کو شیخ یاسین اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں مارے گئے۔
عبدالعزیز الرنتیسی
وہ ایک فلسطینی طبیب اور سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ حماس کے ممتاز سیاسی رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
الرنتیسی نے 22 مارچ 2004 کو شیخ احمد یاسین کے قتل کے بعد تحریک کی قیادت سنبھالی لیکن یہ عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اسرائیل نے غزہ میں ان کی گاڑی پر میزائل فائر کرکے انھیں قتل کردیا۔
الرنتیسی کی پیدائش یبنا گاؤں میں ہوئی تھی جو اب اسرائیل میں واقع ہے اور ان کے خاندان نے اسرائیل کے قیام کے بعد غزہ میں پناہ لی تھی۔
انھوں نے اپنی ثانوی تعلیم 1965 میں مکمل کی اور 1972 میں اسکندریہ یونیورسٹی کی فیکلٹی آف میڈیسن سے گریجویشن کیا۔ بعد میں انھوں نے 1976 میں خان یونس کے ناصر ہسپتال میں بطور ڈاکٹر بھی کام کیا۔
انھوں نے 1978 میں غزہ کی اسلامی یونیورسٹی کے قیام کے بعد وہاں لیکچرار کے طور پر بھی کام کیا۔ انھیں اسرائیل مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے مختلف ادوار میں متعدد بار گرفتار کیا گیا۔ وہ 1992 میں مرج الظہور میں جلاوطن ہونے والوں کے ترجمان تھے۔
انھیں 1993 میں مرج الظہور سے واپسی پر فوری طور پر گرفتار کر لیا گیا اور 1997 کے وسط تک حراست میں رکھا گیا۔
عدنان الغول
عدنان الغول کو قسام بریگیڈ کے قائدین اور بانیوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے، وہ یحییٰ عیاش کے معاون بھی تھے۔ الغول نے بیرون ملک انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی اور مقامی طور پر بم، راکٹ اور میزائل تیار کرنے میں کامیاب رہے۔
ان کے آنے سے حماس کو وہ نئی صلاحیتیں ملیں جو اس کے پاس پہلے نہیں تھیں۔
الغول سنہ 1958 میں غزہ کے شاتی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے 1987 میں پہلی انتفادہ شروع ہونے سے پہلے اسرائیل کے خلاف اپنی عسکری سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ انھوں نے ایک گروپ بنایا جس نے غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کے خلاف چُھرا مار کارروائیاں کیں۔
اسرائیل نے الغول کو دھماکہ خیز مواد بنانے کا ماہرقرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ وہ راکٹ تیار کرتے ہیں جنھیں فلسطینی شمالی غزہ کی پٹی سے جنوبی اسرائیل میں فائر کیا جاتا ہے۔
انھیں اسرائیل کے خلاف بڑی تعداد میں حملوں کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا گیا۔
الغول پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے اور وہ 1980 کی دہائی سے اسرائیل کو سب سے زیادہ مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔
الغول اس وقت مارے گئے جب ایک اسرائیلی جاسوس طیارے کی طرف سے داغا گیا میزائل غزہ میں ان کی گاڑی سے ٹکرا گیا۔ ان کے ساتھی عماد عباس بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے۔
سعید صیام
حماس کے رہنما سعید صیام نے سنہ 2006 کے انتخابات میں حماس کی کامیابی کے بعد فلسطین میں وزارتِ داخلہ کا قلمدان سنبھالا تھا اور انھیں 2009 میں غزہ میں جنگ کے دوران اسرائیلی فوج نے قتل کر دیا تھا۔
صیام 1959 میں غزہ کے شطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے تھے اور حماس کے قیام کے بعد سے وہ ایک اہم شخصیت سمجھے جاتے تھے۔
اسرائیل نے انھیں ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک سے زیادہ مرتبہ گرفتار کیا اور وہ ان لوگوں میں شامل تھے جنھیں مرج الاسلام بھیج دیا گیا تھا۔
وزیر داخلہ کی حیثیت سے اپنے دور میں غزہ پر محاصرہ نافذ ہونے سے پہلے صیام نے شام اور ایران سمیت متعدد ممالک کا دورہ کیا اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تحریک کے ایران کے ساتھ تعلقات کی سنگ بنیاد رکھی۔
صیام 15 جنوری 2009 کو غزہ کی پٹی پر جنگ کے دوران ایک اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے۔ ان کے ساتھ ان کے بھائی اور چھ دیگر افراد بھی مارے گئے تھے۔
احمد الجعبری
1960 میں غزہ کی پٹی میں پیدا ہونے والے احمد الجعبری نے پہلے الفتح میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن جیل میں قید کے دوران وہ احمد یاسین اور عبدالعزیز الرنتیسی سے واقف ہوئے۔ سنہ 1995 میں جیل سے رہائی کے بعد وہ حماس میں شامل ہو گئے۔
القسام بریگیڈ کے سربراہ محمد الضیف اور دھماکہ خیز مواد اور میزائل انجینئر عدنان الغول کے ساتھ بعد میں الجعبری کے تعلقات مضبوط ہوئے اور انھوں نے صلاح شھادہ کے ساتھ مل کر قسام بریگیڈز کے قیام اور کمانڈ سنبھالنے میں تعاون کیا۔
محمد الضیف کے 2003 میں قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد الجعبری نائب کے طور پر قسام بریگیڈ کے ’ڈی فیکٹو‘ لیڈر بن گئے۔
14 نومبر 2012 کو اسرائیل ان تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اور انھیں اس وقت فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ حج سے واپسی کے ایک ہفتے بعد غزہ میں پبلک سروس کمپلیکس کے قریب کار میں سفر کر رہے تھے۔
رائد العطار
21 اگست 2014 کو غزہ کی پٹی میں رفح میں ایک مکان کو نشانہ بنایا گیا اور اس فضائی حملے میں قسام بریگیڈ کی ملٹری کونسل کے اراکین رائد العطار، محمد ابو شاملہ اور محمد برہوم مارے گئے۔
العطار قسام بریگیڈ کے بانیوں میں سے ایک تھے اور اس کی ’رفح بریگیڈ‘ کی قیادت کر رہے تھے۔
اسرائیل نے العطار کو قتل اور تخریب کاری کے الزامات کے سبب انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کیا ہوا تھا۔
اسرائیل کی داخلی سلامتی سروس (شاباک) نے انھیں قسام بریگیڈ کے سب سے طاقتور لیڈروں میں سے ایک قرار دیا تھا۔ ان کے مطابق وہ پورے رفح علاقے کے عسکری طور پر ذمہ دار تھے اور انھوں نے ہی حماس کے لیے سرنگیں تعمیر کی تھیں۔
العطار نے 2006 میں کیرم شالوم کے علاقے میں قسام بریگیڈ کے حملے کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں دو اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے اور گیلاد شالیت کو اغوا کر لیا گیا تھا۔
العطار نے 2001 میں رفح میں ایک اسرائیلی سائٹ پر حملے کی منصوبہ بندی اور اس کو انجام دینے میں بھی حصہ لیا تھا جس میں چار اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے تھے۔
العطار 2012 کے آپریشن کے منصوبہ سازوں میں سے ایک تھے۔ اس حملے میں چار بدو اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔