پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن کئی دہائیوں سے مسئلہ کیوں بنی ہوئی ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) “یہ 2014 سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ مدارس کو ہم نے ریگولیٹ کرنا ہے۔ ایک سلیبس کرنا ہے۔ 16 ہزار سے زائد مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ 50 فیصد کے لگ بھگ مدارس کا پتا ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں اور انہیں کون چلا رہا ہے۔ کیا یہ کام فوج نے کرنا ہے؟”

یہ گلہ پاکستان فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف نے اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں کیا تھا۔

پاکستان میں مدارس کی رجسٹریشن اور انہیں قومی دھارے میں لانے کا معاملہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ تاہم 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے بعد اس میں تیزی آئی تھی۔ لیکن اب بھی اس پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی شکایات سامنے آتی رہتی ہیں۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ملک میں مدارس کی تعداد 37 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جس میں سے سب سے زیادہ تعداد صوبہ پنجاب میں ہے۔ ان تمام مدارس میں ایک اندازے کے مطابق 40 سے 45 لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔

مدارس کی رجسٹریشن شروع نہ ہونے پر اتحادِ تنظیمات کا ردِعمل

اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن شروع کرنے میں رکاوٹ خود حکومت ہے۔ حکومت کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن کا عمل فوری شروع کیا جانا چاہیے۔ چیف آف آرمی اسٹاف مدارس سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کا نوٹس لیں۔

حالیہ پریس کانفرنس میں اتحاد تنظیمات مدارس کے صدر مفتی تقی عثمانی کا کہنا تھا کہ دینی مدارس کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور افسوس اس بات پر ہے کہ عسکری ادارے بھی اب اس طرح کے کام کر رہے ہیں۔

ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ 50 فیصد مدارس کون چلا رہا ہے؟

اُن کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ بول رہے ہیں جو اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں اور زمین میں چھپی سرنگوں کا پتا لگا لیتے ہیں۔ کئی مدارس کے چلتے بینک اکاونٹس بند کر دیے گئے۔

بینک اکاؤنٹ بند کرنے کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ دینی مدارس کے بینک اکاؤنٹ کھولے جائیں۔

مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں مدارس کی رجسٹریشن کے سلسلے میں ہماری آرمی چیف اور وزیرِ اعظم سے ملاقات ہوئی۔

لیکن جب اس کے نفاذ کا وقت آیا تو وہ عمل روک دیا گیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسا لگتا ہے کہ بیرونی اشاروں پر جان بوجھ کر مدارس کی رجسٹریشن میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔

تنظیم کے ناظم اعلیٰ مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اتحاد تنظیمات مدارس کے اجلاس میں متفقہ طور پر ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کی شدید مذمت کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ 50 فیصد دینی مدارس و جامعات اور ان کے سربراہان نامعلوم لوگ ہیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ دینی مدارس و جامعات اور ان کے چلانے والوں کو پوری قوم جانتی ہے۔ یہ مدارس پاکستان کے قانون کے تحت قائم ہوئے ہیں اور قانون کے دائرے میں مصروفِ عمل ہیں۔

مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم آرمی چیف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ادارے کے ذمے دار افسران کو ہدایات جاری کریں کہ وہ دینی مدارس و جامعات کے سربراہان اساتذہ اور طلبہ کو مجرم یا ملزم یا مشتبہ سمجھ کر بات نہ کریں۔

‘مدارس کی رجسٹریشن ایک سیاسی مسئلہ بن چکی ہے’

سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں قائم ہونے والے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے سابق چئیرمین ڈاکٹر محمد عامر طاسین کا کہنا ہے کہ 2010، 2016 اور 2019 میں اتحاد تنظیمات مدارس سے کئی بار حکومت کے معاہدے ہوئے۔

آخری معاہدے کی رو سے یہ قرار پایا تھا کہ وفاقی وزارتِ تعلیم کے تحت کام کرنے والے ریلجیئس ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کے تحت مدارس خود کو رجسٹرڈ کرائیں گے۔

ڈاکٹر طاسین کی رائے میں یہ اب ایک سیاسی مسئلہ ہے۔ ان کے خیال میں اتحاد تنظیمات مدارس میں شامل پانچوں بورڈز چاہتے ہی نہیں کہ وہ رجسٹرڈ ہوں۔

اب تک رجسٹرڈ ہونے والے زیادہ تر مدارس میں وہ مدارس شامل ہیں جو ان پانچ کے علاوہ دیگر بورڈز کے تحت چل رہے ہیں۔ اب تک جو رجسٹرڈ مدارس ہیں ان میں سے زیادہ تو مکتب ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مکتب اور مدارس میں بھی فرق ہے۔ مکتب درحقیقت مسجد کے موجود چھوٹا تعلیمی ادارہ ہے جو حفظ اور ناظرہ کراتے ہیں۔

ان میں بچے رہائش پذیر نہیں ہوتے جب کہ مدرسہ اس ادارے کو کہا جائے گا جس میں درس نظامی کی ابتدائی کتابیں پڑھائی جائیں اور اس میں بچے رہائش پذیر ہوتے ہیں۔

اصل اختلاف کہاں ہے؟

ڈاکٹر محمد عامر طاسین کے مطابق اصل اختلاف رجسٹریشن فارم پر ہے۔ اس معاملے پر پہلے ایک میٹنگ نیکٹا (نیشنل کاونٹر ٹیررزم اتھارٹی) کے ساتھ ہوئی۔ پھر وزارتِ مذہبی امور کی جانب سے ایک پرفارما تیار کر کے اتحاد مدارس کو پیش کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ اس حوالے سے انہوں نے بھی ایک فارم ڈیزائن کیا اور وہ منظوری کے لیے وزیرِ اعظم آفس بھیجا گیا۔

لیکن اس پر اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا۔ اتحاد تنظیمات مدارس کی قیادت نے اس وقت یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ خود ایک فارم تیار کر کے اپنے مدارس کو بھیجیں گے اور پھر جو معلومات وہاں سے موصول ہوں گی۔ انہیں حکومت کو پیش کر دیا جائے گا۔ لیکن ڈاکٹر عامر کے بقول ایسا بھی نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر عامر طاسین کا کہنا ہے کہ رجسٹریشن نہ کرنے والے تمام مدراس کے بینک اکاونٹس بند ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس میں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ 80 فیصد مدارس دیہی آبادیوں میں ہیں۔ ایسے مدارس کے پاس بین الاقوامی فنڈنگ نہیں آتی۔

لیکن شہروں میں موجود بڑے مدارس کے روابط دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہوتے ہیں اور وہ بیرونی دنیا سے فنڈز بھی اکھٹا کرتے ہیں۔

حکومت نے ان کو پابند کیا ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی تمام فنڈنگ بھی بینک اکاؤنٹ کے ذریعے کی جائے گی۔

اب مدارس کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے اکاونٹس کھولے اور تمام ٹرانزیکشنز کو کلئیر قرار دیا جائے۔

ان کے خیال میں بعض بڑے مدارس اس حق میں نہیں کہ وہ حکومت کے ساتھ ریگولیٹ ہو سکیں۔ کیوں کہ انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو ایک نہ ایک دن ان کے فنڈنگ کے معاملات پر بھی حکومت کا کنٹرول ہو گا۔

مجموعی طور پر یہی وہ تاثر ہے جس پر رجسٹریشن کی مخالفت کی جا رہی ہے۔

ڈاکٹر عامر طاسین کے مطابق حکومتوں کے تبدیل ہونے سے ترجیحات اور پالیسیز بھی تبدیلی ہوتی جاتی ہیں اور یہ واضح نہیں کہ اس میں رکاوٹیں کیوں دور نہیں کی جا سکیں۔

مدارس کی رجسٹریشن، اب تک کیا ہو چکا ہے؟

دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے قبل بھی حکومت نے ملک میں مدارس کی رجسٹریشن اور انہیں ریگولیٹ کرنے کی کوششیں کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو پائی تھیں۔

پاکستان میں اس وقت مختلف مکاتبِ فکر کے تحت چلنے والے مدارس کے پانچ بڑے اور معتبر بورڈز ہیں جن کے مشترکہ پلیٹ فارم کو ‘اتحاد تنظیمات المدارس پاکستان’ کا نام دیا گیا ہے۔

ملک میں 90 کی دہائی سے یہ آوازیں سنائی دے رہی تھیں کہ ملک کے طول و عرض میں قائم ہزاروں کی تعداد میں مدارس کو رجسٹرڈ کیا جائے گا۔

اسی پس منظر میں یہ اتحاد 2005 میں قائم کیا گیا تھا اور حکومت کے ساتھ ان مدارس کی تنظیم کا پہلا معاہدہ 2010 میں سامنے آیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت وفاقی حکومت اور مدراس کا اتحاد، مدارس کے سلیبس میں عصری علوم کو شامل کرنے پر رضامند ہو گئے تھے۔ مدارس کے ان پانچوں بورڈز کو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے سرٹی فکیٹ بھی جاری کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔

تاہم اس کے باوجود مدارس کی رجسٹریشن کا عمل نہیں ہو سکا اور پھر پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو رجسٹرڈ اور ریگولیٹ کرنے کا عزم دہرایا گیا۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے مدارس کو ریگولیٹ کرنے کی ایک اور کوشش کی اور مدارس کی رجسٹریشن کے لیے وفاقی وزارتِ تعلیم کے ماتحت ڈائریکٹوریٹ آف ریلیجئیس ایجوکیشن قائم کیا گیا۔

جس کا کام مدارس کی رجسٹریشن، مالی امور کی نگرانی، بینک اکاونٹس کھولنا اور غیر ملکی طلبہ کے ویزوں جیسے معاملات کو دیکھنا تھا۔

مدارس کے طلبہ کے لیے ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل تعلیم کے لیے منصوبہ بندی اور تمام مدارس کے لیے ایک جیسا قومی نصاب تیار کرنا تھا۔

اتحاد تنظیمات مدارس اور حکومت کے درمیان اس بارے میں اگست 2019 میں چھ نکات پر اتفاقِ رائے بھی پا لیا گیا اور طے کیا گیا کہ مدارس کو رجسٹرڈ کرنے کے ساتھ دینی مدارس کے مالی معاملات میں شفافیت لائی جائے گی۔

ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف کسی بھی قسم کی نفرت اور انتہا پسندی کے فروغ سے اجتناب کیا جائے گا۔

اسی سال ستمبر میں مدارس میں تعلیمی اصلاحات کا کیس کابینہ میں پیش کیا گیا جسے کابینہ نے اس کی منظوری دیتے ہوئے ہدایات جاری کی کہ مدارس کی رجسٹریشن کے لیے تمام ضروری قواعد پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔

مدراس کی رجسٹریشن سے متعلق ایک فارم بھی جاری کرنے پر اتفاق ہوا۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی مدارس کی رجسٹریشن مسئلہ بنی رہی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں