’گڈ طالبان‘ کون ہیں، یہ بنوں کیسے پہنچے اور اب ان کی بے دخلی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے؟

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) ’دو تین سال سے کچھ مسلح افراد نے یہاں اپنے مرکز بنا رکھے تھے۔ پہلے تو وہ پرامن تھے اسی لیے مقامی لوگوں نے بھی کچھ نہیں کہا۔ چند ماہ قبل ان لوگوں نے شہر میں پولیس اور فوج کی طرح گشت شروع کر دیا۔‘

مولانا عبدالغفار قریشی ایک مدرسے کے مہتمم ہیں جو پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر بنوں کی مضافات میں واقع ہے۔ جب ان سے بات ہوئی تو اس وقت مدرسے میں ایک چھت کے نیچے مختلف عمروں کے بچے درس و تدریس میں مصروف تھے۔

وہ دعوی کرتے ہیں کہ ’انتظامیہ کو بھی اس متعلق معلوم تھا۔ پھر ان مرکزوں کی تعداد 35 تک پہنچ گئی اور انھوں نے گاڑیوں کی چیکنگ شروع کر دی۔ سرکاری ملازموں نے اپنا سروس کارڈ ساتھ رکھنا چھوڑ دیا۔‘

بنوں چیمبر آف کامرس کے صدر ناصر خان بنگش بھی مولانا عبد الغفار کی باتوں کی تصدیق کرتے ہیں تاہم بی بی سی ان دعووں کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ناصر خان بنگش نے دعویٰ کیا کہ ’بنوں میں گڈ طالبان کے 37 مراکز قائم ہو گئے تھے اور یہ مسلح لوگ شام کے بعد باہر نکل آتے جبکہ پولیس کہیں نظر نہیں آتی تھی۔‘

بنوں خیبرپختونخوا کا وہ جنوبی علاقہ ہے جو شمالی وزیرستان سے انتہائی قریب ہونے کی وجہ سے ماضی میں بھی دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا ہے تاہم رواں سال ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد مقامی افراد سمیت تاجر برادی نے ایک ایسی امن تحریک کا آغاز کیا جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ ’اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم کیا جائے اور علاقے میں امن کسی فوجی آپریشن کے بغیر قائم کیا جائے‘۔

بنوں امن پاسون نامی اس احتجاج میں پورا شہر ہی امڈ آیا تھا تاہم اس احتجاج کا اختتام ایک اور افسوس ناک واقعے سے ہوا جس میں کم از کم ایک شخص ہلاک ہوا۔

مولانا عبد الغفار کہتے ہیں کہ ’جب لوگ نکلے تو اچھے اور برے طالبان کا فرق ختم ہو گیا اور صرف یہ کہا گیا کہ کسی بھی طرح کے مسلح افراد یا گروہوں کو اجازت نہیں ہو گی۔‘

لیکن یہ گڈ طالبان کون ہیں؟ یہ بنوں میں کیسے پہنچے، اب ان کی بے دخلی کا مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے اور حکومت کیا کر رہی ہے؟

بی بی سی نے بنوں میں ناصر خان بنگش اور مولانا عبدالغفار سمیت متعدد افراد سے بات چیت کی اور ان سوالات سمیت ان حالات کا بھی احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے جنھوں نے امن کی ایک ایسی غیر معمولی عوامی تحریک کو جنم دیا جس نے صوبائی حکومت کو عملی اقدامات اٹھانے پر مجبور کر دیا۔

بی بی سی نے اس نوجوان کے اہلخانہ سے بھی بات چیت کی جس کی ہلاکت کے بعد امن تحریک کی بنیاد پڑی جبکہ صوبائی حکومت اور انتظامیہ سے بھی ان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔

خیبرپختونخوا میں شدت پسندی کی واپسی اور ’گڈ طالبان‘

خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں پرتشدد واقعات اور بدامنی معمول بنتے جا رہے ہیں جن میں کرک، بنوں، لکی مروت، شمالی اور جنوبی وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور کلاچی شامل ہیں۔

تاہم ان واقعات کے آغاز سے قبل مقامی سطح پر اس وقت تشویش شروع ہوئی جب مسلح افراد کے مراکز قائم ہونا شروع ہوئے اور پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز سامنے آنا شروع ہوئیں جن میں مسلح افراد مرکزی شاہراہوں پر چیکنگ کرتے نظر آئے۔

جلد ہی سرکاری ملازمین کو اغوا کرنے کے واقعات بڑھنا شروع ہوئے اور ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت میں پولیس اور سیکیورٹی اہلکاروں پر متعدد حملے ہوئے، تھانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کی جانب سے بھی ایک بیان بھی جاری کیا گیا کہ پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکار اور سرکاری ملازمین چھٹیوں پر جانے اور سفر کے دوران اپنے کارڈ ہمراہ نہ رکھیں۔

سرکاری اعداد شمار کے مطابق گذشتہ چھ ماہ کے دوران خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 220 اہلکار مختلف واقعات میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں فوج، پولیس، ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد 300 سے زیادہ ہے۔

بی بی سی نے بنوں میں ناصر خان بنگش اور مولانا عبدالغفار سمیت جن افراد سے بات چیت کی اور ان سے پوچھا کہ ’اچھے طالبان‘ سے ان کی کیا مراد ہے۔ اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ علاقے میں تاثر موجود ہے کہ یہ ایسے افراد ہیں جو ماضی میں طالبان کا حصہ تھے تاہم انھوں نے حکومت پاکستان کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی حامی بھری اور افغانستان سے پاکستان واپس آئے۔

ان کے مطابق ’ان افراد نے مقامی سطح پر لوگوں کے تصفیے کروانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ڈرانا دھمکانا بھی شروع کیا۔‘

مولانا عبدالغفار نے کہا کہ ’برے طالبان شہری آبادیوں کے قریب نہیں رہتے اور نہ ہی مرکز بناتے ہیں بلکہ خفیہ مقامات سے نکل کر کارروائی کرتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2022 میں حکومت پاکستان کی ایک پالیسی کے تحت افغانستان میں موجود کئی ایسے شدت پسندوں کے خاندانوں کو واپس لانے کے اقدامات کیے گئے تھے جو حکومت کو مطلوب رہے اور ان میں سے اکثر فوجی کارروائیوں یا ڈرون حملوں میں مارے جا چکے تھے۔

بی بی سی نے اس بارے میں بنوں کی مقامی انتظامیہ سمیت انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا سے بارہا ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن انھوں نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔

تاہم خیبر پختونخوا انسداد دہشت گردی کی محکمے کے تھانوں میں درج آیف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’بنوں شہر کے علاقوں میں کالعدم تنظیم سے وابستہ تربیت یافتہ مسلح شدت پسندوں نے اپنے مرکز بنا رکھے ہیں جو لوگوں کو بے جا تنگ کرتے ہیں، ان سے بھتے وصول کرتے ہیں اور انکار پر انھیں مارنے اور اغوا کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔‘

اس ایف آئی آر میں درج ہے کہ ’شام کے بعد یہ لوگ ناکے لگا لیتے ہیں اور لوگوں کی تلاشیاں لیتے ہیں جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ افراد نوجوانوں کو شرپسندی کی طرف راغب کرتے ہیں اور یہ مسلح افراد علاقے میں کالے شیشے والی گاڑیوں میں گھومتے رہتے ہیں جس سے علاقے میں خوف پایا جاتا ہے۔‘

نصر اللہ کی ہلاکت

بنوں میں 15 جولائی کا دن بھی کسی عام دن کی طرح ہی شروع ہوا تھا لیکن پھر صبح سویرے ہونے والے ایک حملے نے سب کچھ بدل دیا۔ یہ حملہ بنوں چھاؤنی پر ہوا تھا لیکن دوپہر تک باقی شہر میں حالات بظاہر معمول پر آ چکے تھے۔

نصر اللہ بھی گھر سے اپنی ورکشاپ جانے کے لیے اٹھے لیکن ان کا موٹرسائیکل دغا دے گیا تو وہ پیدل ہی نکل پڑے۔ یہ ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہونے والا تھا لیکن ان کی ہلاکت نے بنوں میں امن کی عوامی تحریک کو جنم دیا۔

دمساز خان اعوان نصر اللہ کے کزن ہیں جو اسی دن بنوں میں سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے دوران ایک گولی کا نشانہ بن گئے تھے۔

دمساز خان بتاتے ہیں کہ ’دن کے وقت تک حالات بہتر ہو گئے تھے، وقفے وقفے سے فائرنگ کی آوازیں سنائی دیتی تھیں لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ چھاؤنی کے اندر کیا ہو رہا تھا۔‘

واضح رہے کہ بنوں چھاؤنی پر حملے کے دوران پہلے ایک خودکش بمبار نے گاڑی کینٹ کی ایک دیوار کے ساتھ دھماکے سے اڑا دی تھی جس کے بعد کم از کم نو دیگر خود کش حملہ آور اس مقام سے اندر داخل ہو گئے۔

نصر اللہ چھاؤنی کے اندر کے حالات سے بے خبر لاری اڈہ کے قریب اپنی ورکشاپ سے نزدیک ہی ایک مقام پر دوستوں کے ساتھ موجود تھے جب اچانک شدید فائرنگ شروع ہوئی۔

’نصراللہ بھی اپنی ورکشاپ کی جانب دوڑے اور ابھی شٹر بند کرنے ہی والے تھے کہ اچانک انھیں ایک گولی لگی اور وہ وہیں گر گئے۔‘ دمساز خان بتاتے ہیں کہ ’حالات کشیدہ ہو گئے تھے، لوگ پریشانی کے عالم میں بھاگ رہے تھے اور کوئی زخمیوں کو اٹھا بھی نہیں پا رہا تھا۔‘

جب بی بی سی کی دمساز سے بات ہوئی وہ اسی ورکشاپ میں موجود تھے جہاں لوگ ان سے اظہار افسوس اور تعزیت کے لیے آ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتے کہ نصر اللہ کو لگنے والی گولی کس نے چلائی تھی۔

بنوں امن پاسون

لیکن نصر اللہ کی ہلاکت کے بعد بنوں کی تاریخ میں عوامی سطح پر اب تک کا سب سے بڑا احتجاج ہوا جس میں سیاست اور ہر قسم کی تفریق سے بالاتر ہو کر تقریباً سبھی لوگ شامل ہوئے۔ بنوں پاسون نامی احتجاج کا اعلان کرتے ہوئے مولانا عبدالغفار قریشی نے کہا تھا کہ ’مسلح لوگ اب برداشت نہیں کیے جائیں گے۔‘

تاہم اسی احتجاج کے دوران بنوں چھاؤنی کے قریب فائرنگ کا ایک واقعہ بھی ہوا جس کے بارے میں متضاد دعوے موجود ہیں۔ بنوں میں جن افراد سے ہماری بات چیت ہوئی، ان کا دعوی تھا کہ چند کم عمر بچے چھاؤنی کی ٹوٹی ہوئی دیوار سے اندر داخل ہوئے اور فوجی ڈپو سے چینی اور گھی کے ڈبے اٹھانے لگے۔

ان کے مطابق ’اسی دوران پتھراؤ بھی ہوا اور پھر فائرنگ کی گئی‘ جس میں ایک نوجوان سعد اللہ ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے تھے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کا اعلان کر رکھا ہے تاہم پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا تھا کہ تاجروں کے ’امن مارچ‘ میں کچھ ’منفی عناصر‘ اور مسلح افراد شامل ہو گئے تھے جن کی فائرنگ سے لوگ زخمی ہوئے۔

اس واقعے کے بعد بنوں میں امن کے قیام کے لیے عوامی دباؤ اتنا بڑھا کہ پولیس اور انسداد دہشت گردی کے محکمے سی ٹی ڈی نے کارروائیاں شروع کیں اور دو درجن کے لگ بھگ مسلح افراد کو گرفتار کیا گیا جنھیں عدالت میں پیش کرکے ریمانڈ بھی حاصل کیا گیا ہے۔

وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے احکامات کے بعد بنوں میں مسلح افراد کے خلاف کریک ڈاؤن میں گرفتار 21 ملزمان میں سابق طالبان کمانڈر مولوی اسحاق سمیت دیگر مبینہ شدت پسند شامل ہیں۔ پولیس اور سی ٹی ڈی کی جانب سے ان کارروائیوں کے بعد مقامی سطح پر عوام نے پولیس کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

حکومت کا موقف کیا ہے؟

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے بتایا کہ بنیادی طور پر خیبرپختونخوا کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے اور ماضی میں ان شدت پسندوں کے خلاف افغانستان میں کارروائیاں کی جاتی تھیں لیکن اب وہ افغانستان سے کھلے عام سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آنے والے ان شدت پسندوں کے خلاف جہاں جہاں سکیورٹی فورسز کارروائیاں کرتی ہیں شدت پسند وہاں سے فرار ہو جاتے ہیں اور دوسرے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سوات کے بعد یہ لوگ وزیرستان میں آئے اور اب یہ لوگ جنوبی اضلاع کے شہری علاقوں میں آگئے ہیں لیکن یہاں بھی ان کے خلاف کارروائیاں کرکے ان کا خاتمہ کیا جائے گا۔‘

کیا خیبرپختونخوا پولیس شدت پسندی کا اکیلے مقابلہ کر سکتی ہے؟

بنوں امن پاسون میں یہ مطالبہ نمایاں تھا کہ وہ بنوں میں کوئی فوجی آپریشن نہیں چاہتے اور یہ کہ مسلح شدت پسندوں کے خلاف کارروائی پولیس اور سی ٹی ڈی کرے۔

ایسے میں یہ سوال اٹھا کہ کیا مقامی پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی کے پاس اتنی صلاحیت اور وسائل موجود ہیں کہ وہ فوج کی مدد کے بغیر اکیلے تربیت یافتہ مسلح شدت پسندوں کا مقابلہ کر سکیں۔

اس بارے میں سابق انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا سید اختر علی شاہ نے بی بی سی کو بتایا کہ خیبر پختونخوا پولیس گذشتہ 22 سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پیش پیش ہے اور 7000 پولیس جوان انسداد دہشت گردی کی خصوصی تربیت حاصل کر چکے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’انسداد دہشت گردی کا ایک تربیتی مرکز ہے جہاں سے ہر سال تربیت یافتہ پولیس جوان نکل رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پولیس تھانوں اور ضلع کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اور اس طرف توجہ دینا ضروری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مردان میں بطور ڈی آئی جی ان کی کمان میں پولیس نے آرمی اور فرنٹیئر کور کے مدد کے بغیر شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کیں اور وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں