لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی)حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی جمعے کے روز تدفین کے بعد بھی ان کی ایران کے دارالحکومت تہران میں ہلاکت ابھی تک ایک معمہ ہے۔
اسماعیل ہنیہ کو بدھ کی صبح تہران میں اس وقت ایک حملے میں ہلاک کیا گیا تھا جب وہ یہاں نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے موجود تھے۔
ایران کی پاسدارانِ انقلاب (آئی آر جی سی) نے سنیچر کے روز جاری اپنے بیان میں اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حماس کے رہنما کو نشانہ بنانے کے لیے کم فاصلے سے مار کرنے والے پروجیکٹائل کا استعمال کیا گیا تھا۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس کے مطابق پاسدارانِ انقلاب کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی رہائش گاہ پر شارٹ رینج پروجیکٹائل فائر کیا گیا جس پر تقریباً سات کلو گرام وار ہیڈ لگا تھا۔
بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’اس کارروائی کا منصوبہ اور اس پر عملدرآمد اسرائیلی حکومت نے کیا جبکہ امریکہ کی حکومت نے اس کی حمایت کی تھی۔‘
تاحال اسرائیل نے اس بارے میں کوئی بیان جاری نہیں کیا تاہم امریکہ کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ ان کا اس حملے سے کوئی تعلق نہیں۔
حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی اس رہائش گاہ کے بارے میں نہ ہی سرکاری سطح پر معلومات فراہم کی گئیں اور نہ ہی ان کے ہلاکت کے بارے میں دیگر تفصیلات سامنے لائی گئیں۔
یہی نہیں بلکہ جائے وقوعہ کے حوالے سے کوئی تصویر یا ویڈیو تک جاری نہیں کی گئی یہاں تک کہ اسماعیل ہنیہ اور ان کے محافظ کی بھی کوئی تصویر نہیں جاری کی گئی۔ یوں پراسراریت کے انہی پردوں میں جمعے کی دوپہر قطر کے شہر دوحہ میں انھیں دفن کر دیا گیا۔
اسماعیل ہنیہ اور ان کے ایک محافظ کی اس طرح موت کی خبر نہ صرف پورے خطے کے لیے ایک بڑی خبر ہے بلکہ موجودہ حالات کے تناظر میں مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کا خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے متعلق کئی سوالات کے جوابات ملنا ابھی باقی ہیں تاہم اس گھمبیر صورت حال نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ تھمنے اور امن کے امکانات کو مزید تاریک کر دیا ہے۔
ایران سے لے کر حماس، لبنان کی حزب اللہ اور عراق، شام اور یمن میں دیگر مزاحمتی قوتیں اس نقصان کا بدلہ لینے کی ٹھان چکی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اسماعیل ہنیہ اور ان کے محفظ کے قتل سے محض ایک روز پہلے حزب اللہ کے سینیئر کمانڈروں میں سے ایک فواد شکر اور القدس فورس کے رکن میلاد بیدی دمشق کے مشرق میں اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے۔
اسماعیل ہنیہ پر حملہ ایرانی سرزمین پر کسی غیر ملکی سیاسی شخصیت کا انتہائی اہم واقعہ ہے جس کی ماضی قریب میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ایران نے ماضی کے برعکس اسماعیل ہنیہ اور ان کے محافظ کی ہلاکت کی فوری خبر جاری کی تاہم حسب روایت تاحال اس واقعے کی درست اور واضح تفصیلات فراہم نہیں کیں اور اسی اجتناب کے باعث اس بارے میں ابہام پیدا ہو چکا ہے۔
’ہر طرف گہرا دھواں پھیلا ہوا تھا‘
تہران میں مقیم حماس کے نمائندے خالد قدومی اسی عمارت میں مقیم تھے جہاں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق انھوں نے اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت کے حوالے سے ’دی نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کو مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ حماس رہنما کی ہلاکت ایک بم دھماکے کی وجہ سے ہوئی۔
خیال رہے کہ یکم اگست کو نیویارک ٹائمز نے سات ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ اسماعیل ہنیہ سعد آباد کمپلیکس میں ان کی مستقل رہائش گاہ میں دو ماہ قبل نصب کیے گئے بم سے مارے گئے۔
اس رپورٹ پر پاسداران انقلاب کے قریبی فارس نیوز ایجنسی سمیت مقامی میڈیا کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا آیا۔
فارس نیوز ایجنسی نے بھی نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کی تردید کرتے ہوئے سعد آباد کمپلیکس میں تباہ شدہ رہائش گاہ کی تصویر شائع کی اور لکھا کہ اسماعیل ہنیہ کو ’ظفرانیہ‘ میں ایک عمارت کی چوتھی منزل پر ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا لیکن اس رپورٹ میں بھی نہ فضائی حملے سے متعلق کوئی براہ راست تفصیلات تھیں اور نہ ان کی رہائش کا درست مقام بتایا گیا۔
ایرانی خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق خالد قدومی نے دی نیو عرب سے بات کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ 31 جولائی کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بج کر 37 منٹ پر عمارت دھماکے سے لرز اٹھی۔
قدومی کہتے ہیں کہ ’وہ فوراً اپنے کمرے سے باہر نکلے تو دیکھا کہ ہر طرف گہرا دھواں پھیلا ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عمارت اتنے زور سے ہل رہی تھی کہ انھیں لگا کہ جیسا زلزلہ آ گیا ہو لیکن ایسا نہیں تھا۔‘
قدومی نے اخبار کو بتایا کہ ’جب وہ اور ان کی ٹیم چوتھی منزل پر واقع ہنیہ کے کمرے میں پہنچی تو انھوں نے دیکھا کہ کمرے کی دیواریں اور چھت گر چکی تھی اور اسماعیل ہنیہ ہلاک ہو چکے تھے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بظاہر کمرے کی حالت سے واضح تھا کہ حملہ کسی فضائی پروجیکٹائل یا میزائل کے ذریعے کیا گیا۔‘
کہانی کہاں سے شروع ہوئی؟
اسماعیل ہنیہ گذشتہ برسوں میں مختلف مقاصد کے لیے کئی بار ایران کا سفر پہلے بھی کرتے رہے تھے اور شاید اسی وجہ سے ان کے نزدیک ایران محفوظ ملک تھا۔
حال ہی میں وہ دو جون کو یعنی قتل سے دو ماہ قبل ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے ایران گئے تھے۔
تہران میں اسماعیل ہنیہ نے اپنے قتل سے چند گھنٹے قبل ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای اور نئے صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کی تھی۔
بدھ 31 جولائی کو تقریباً رات دو بجے، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کم از کم تین گمنام اکاؤنٹس نے تہران کے شمال اور مغرب میں ایک زوردار دھماکے کی آواز سنے جانے کا دعویٰ کیا۔
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد پاسداران انقلاب نے اسماعیل ہنیہ اور ان کے محافظ کی ہلاکت کی تصدیق سے متعلق بیان جاری کر دیا۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے بھی اس کی فوری تصدیق کر دی۔
ایرانی پاسداران انقلاب کے ابتدائی بیان میں اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں تھیں کہ اسماعیل ہنیہ کو کس طرح ہلاک کیا گیا۔ بیان میں فقط یہ بتایا گیا کہ ’حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی تہران میں رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا، جس میں وہ اور ان کے محافظ ہلاک ہو گئے ہیں۔‘
سنیچر کو ان کی جانب سے جاری بیان میں یہ ضرور بتایا گیا کہ حملہ شارٹ رینج پروجیکٹائل سے کیا گیا اور اس میں سات کلو گرام کا وارہیڈ استعمال کیا گیا لیکن یہ بتایا گیا کہ اسماعیل ہنیہ کہاں رہائش پذیر تھے اور نہ یہ بتایا گیا کہ ان کو کیسے اور کس طرح نشانہ بنایا گیا؟
ایران اور حماس نے اس کارروائی کا اصل ذمہ دار اسرائیل کو ٹھہرایا تاہم اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے حوالے سے ’کوئی پوزیشن نہیں لے گا۔‘
آئی آر جی سی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات جاری ہیں اور اس کے حوالے سے معلومات بعد میں جاری کی جائیں گی تاہم بعد میں جاری کیے گئے بیانات میں بھی جائے حادثہ کی کوئی تصویر یا ویڈیو تک جاری نہیں کی گئی۔
بعض مقامی میڈیا اور آئی آر جی سی کے قریبی چینلز کی جانب سے ابتدا میں کہا گیا کہ اسماعیل ہنیہ کو فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا اور وہ تہران کے شمال میں واقع سابق فوجیوں کے لیے مخصوص رہائش گاہوں میں سے ایک میں مقیم تھے۔
معروف اسرائیلی صحافی اور تجزیہ کار امیت سیگل نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی خبر کے فوراً بعد اپنے ٹیلی گرام چینل پر لکھا کہ انھیں رات 2 بجے ایک راکٹ حملے میں نشانہ بنایا گیا۔
حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ کے قتل کے طریقے کے بارے میں کسی قسم کی حتمی اور واضح معلومات شیئر نہ کیے جانے کے باعث سوشل نیٹ ورکس اور بعض میڈیا پر مختلف قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
ایران کی ایک مقامی نیوز ایجنسی میزان نے ایرانی حمایت یافتہ بیروت کے سیٹیلائیٹ ٹی وی المیادین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایران کے اندر سے نہیں بلکہ سرحد کے باہر کیے جانے والے میزائل حملے کا نتیجہ تھا۔
31 جولائی کی دوپہر حماس کے ایک سینیئر رکن خلیل الحیہ نے تہران میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ان کے پاس موجود معلومات کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا تھا۔
خلیل الحیہ کا کہنا تھا کہ میزائل اس کمرے پر لگا جہاں اسماعیل ہنیہ موجود تھے جس سے اس کمرے کی کھڑکیاں ٹوٹ گئیں اور دیوار گر گئی تاہم حماس کے اس سینئر عہدیدار نے بھی اس جگہ کا ذکر نہیں کیا جہاں اسماعیل ہنیہ قیام پذیر تھے۔
فی الحال زیادہ تر افراد کا خیال ہے کہ اسماعیل ہنیہ میزائل حملے میں مارے گئے نہ کہ بم یا ڈرون کے استعمال سے۔
اس کے بعد آئی آر جی سی سے وابستہ کئی چینلز پر ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ اسماعیل ہنیہ تہران کے شمال میں واقع تھراللہ اڈوں میں سے ایک میں مقیم تھے۔
اس کے تھوڑی دیر بعد، انٹیلیجنس اداروں سے منسوب ایک رپورٹ پاسداران انقلاب کے ٹیلی گرام چینلز پر شائع ہوئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اسماعیل ہنیہ کو تہران کے شمال میں سابق فوجیوں کے اڈوں پر مکمل طور پرخفیہ رکھا گیا تھا۔
یہاں تک کے عمارت کا چوکیدار اور مقامی پولیس ان کی شناخت کے بارے میں کچھ نہ جانتے تھے۔ انھیں محض اتنا معلوم تھا کہ یہ کوئی عام غیر ملکی مہمان ہیں۔
افواج کے سربراہان کے علاوہ صرف صدر کے دفتر کے سربراہ حاجی مرزائی کو سابق فوجیوں کی جگہ پر رہنے والے شخص کی شناخت کے بارے میں بتایا گیا تھا تاکہ وہ ان کے لیے ضروری حفاظتی انتظامات کر سکیں۔
اس رپورٹ کو سکیورٹی اداروں نے چند گھنٹوں کے بعد ہی مسترد کر دیا۔
نشاط والیاسر کمپلیکس، بسیج الزہرا کیمپ اور سعد آباد کمپلیکس کے کچھ دوسرے علاقے ان مقامات میں شامل تھے جو تہران میں حماس کے سیاسی رہنما کی رہائشگاہ کے طور پر میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس میں بتائے گئے۔
31 جولائی کی رات ایک عمارت کی ایک تصویر جاری کی گئی جو جزوی طور پر تباہ نظر آتی ہے اور جس کے تباہ شدہ حصوں کو سیاہ جالی دار کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔
بی بی سی کی تحقیقات کے مطابق یہ عمارت سعد آباد کمپلیکس کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے۔
عمارت کے تباہ شدہ حصوں کے نیچے آپ عمارت کے دوسرے حصے پر گرا ہوا ملبہ دیکھ سکتے ہیں اور عمارت کی تیسری منزل اور دائیں جانب واقع دو کھڑکیوں کے شیشے بظاہر ٹوٹے ہوئے ہیں تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر اسماعیل ہنیہ کے قتل کے مقام کے طور پر اس مقام کی تصدیق نہیں کر سکتا۔
اس واقعے کے ایک دن بعد نہ صرف پاسداران انقلاب کے ایک قریبی ٹیلی گرام چینلز نے اس جگہ کو حماس کے سیاسی رہنما کی رہائش گاہ اور قتل کی جگہ قرار دیا بلکہ بعض اسرائیلی ٹیلی گرام چینلز بھی اسی جگہ کو جائے حادثہ قرار دیتے رہے۔
ان میں سے کچھ چینلز نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ جس جگہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا گیا وہ اس جگہ سے صرف 750 میٹر کے فاصلے پر تھی یہاں ایرانی صدر کی حلف برداری کی تقریب کے بعد صدارتی ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا۔
جمعرات، یکم اگست کو پاسداران انقلاب کے سرکاری چینل نے ایک ویڈیو جاری کی اور اسماعیل ہنیہ کی موت کے مقام کو ’سعد آباد محل کے قریب‘ قرار دیا تاہم انھوں نے مزید تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔
اس ویڈیو کو شائع کرنے کا طریقہ کار کچھ اس طرح تھا کہ بظاہر ان کا ارادہ بالواسطہ طور پر اسماعیل ہنیہ کی رہائش اور قتل کی تصویر کشی کرنا تھا۔
میکسر ٹیکنالوجی کمپنی نے بی بی سی کو سعد آباد کمپلیکس میں اس رہائش گاہ کی 25 جولائی اور یکم اگست 2024 کی سیٹلائٹ تصاویر فراہم کی ہیں۔
25 جولائی (اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت سے پانچ دن پہلے) کی تصویر میں اس عمارت میں تباہی یا نقصان کا کوئی نشان نہیں نظر آتا۔
یکم اگست کومیکسر سیٹلائٹ کی سیٹلائٹ امیج کے زاویے میں کوئی نقصان نہیں دیکھا جا سکتا تاہم عمارت کی چھت کے ایک حصے میں ایک سیاہ دھبہ دیکھا جا سکتا ہے جو تباہ شدہ حصے سے مماثلت رکھتا ہے۔
غالباً عمارت کے ایک حصے پر ایک پردہ پڑا ہوا ہے اور تصویر کے اوپری حصے میں دیوار گرنے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عمارت کی تباہی سے متعلق ہے۔
تاہم ظفرانیہ میں ایک عمارت کی چوتھی منزل کا حوالہ تباہ شدہ رہائش گاہ کی تصویر سے مطابقت رکھتا ہے کیونکہ سعد آباد کمپلیکس میں اس عمارت کی چوتھی منزل کو نقصان پہنچا تھا۔