کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) بلوچستان کے علاقے نوشکی میں سیکورٹی فورسز کی مبینہ فائرنگ سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے میں شریک ایک نوجوان ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔
ڈپٹی کمشنر نوشکی امجد سومرو نے بتایا کہ ’یہ واقعہ ریلوے سٹیشن کے قریب آرسی ڈی شاہراہ پر مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ کے باعث پیش آیا۔‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ ’گوادر میں بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع کے لیے جانے والے افراد کو تشدد کا نشانہ بنانے کے خلاف نوشکی میں ایک پرامن ریلی نکالی گئی جس میں خواتین بھی شریک تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ریلی کے شرکا شہر سے پر امن طور پر ہائی وے پر پہنچے اور وہاں مقررین نے ان سے خطاب کررہے تھے کہ ایف سی کے اہلکار وہاں آئے اور مبینہ طور پر پر امن مظاہرین پر فائرنگ کی۔‘
ان کے مطابق ’فائرنگ سے مظاہرے میں شریک ہمدان بلوچ نامی نوجوان ہلاک اور دو افراد زخمی ہوگئے۔‘
بیبرگ بلوچ نے کہا کہ ’ریلی کے شرکا پرامن تھے لیکن ان پر بلاجواز فائرنگ کی گئی۔‘
نوشکی میں انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی کے بعد مزید علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
نوشکی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام ریلی اور دھرنے کے حوالے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ویڈیوز گردش کررہی ہیں جن میں نوشکی شہر سے ریلی میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد میں شرکت کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ایک اور ویڈیو جس کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی میں بڑے پیمانے فائرنگ کی آوازیں سُنائی دے رہی ہیں۔
ویڈیو میں خواتین اور دیگر افراد محفوظ مقامات کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دینے کے علاوہ جھک کر فائرنگ سے بچنے کی کوشش کررہے ہیں۔
جب اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر نوشکی امجد سومرو سے فون پر رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ریلوے سٹیشن کے قریب مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ ہوئی جہاں فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بارے میں تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔
بلوچستان کے متعدد علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کا احتجاج جاری، کوئٹہ تفتان شاہراہ بند
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ سنیچر کو بھی جاری ہے۔
نوشکی میں گذشتہ روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنان پر فائرنگ کے نیتجے میں ایک نوجوان کی ہلاکت اور دو کے زخمی ہونے کے خلاف دھرنے کی وجہ سے کوئٹہ اور ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان کے درمیان شاہراہ بند ہے۔
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کے دعوؤں اور 80 کے قریب گرفتار افراد کی رہائی کے باوجود ساحلی شہر گوادر میں 28 جولائی سے جاری دھرنے کو بلوچ یکجہتی کمیٹی نے تاحال ختم نہیں کیا۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومت نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کیا، جس کے بعد یکجہتی کمیٹی کو معاہدے کے مطابق گوادر سمیت دیگر علاقوں میں دھرنوں کو ختم کرنا چاہیے تھا۔
تاہم بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کا کہنا ہے کہ گوادر میں بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کی رہائی تک ان کا پُرامن احتجاج جاری رہے گا۔
احتجاج اور دھرنے کہاں کہاں ہو رہے ہیں؟
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیرِ اہتمام دھرنا یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے جاری ہے۔
کوئٹہ شہر میں ریڈ زون کے راستوں کو بند کرنے کے لیے 27 جولائی کو جو کنٹینرز لگائے گئے تھے ان کو گذشتہ روز شام کو ہٹا دیا گیا تھا۔ تاہم چند گھنٹے بعد ان کو دوبارہ لگا دیا گیا ہے۔
سرکاری حکام کے مطابق نوشکی میں ایک شخص کی ہلاکت اور دو افراد کے زخمی ہونے کے بعد مظاہرین نے ایک بار پھر ریڈ زون کی طرف پیش قدمی کی تھی اور اسی لیے راستوں پر کنٹینرز دوبارہ لگائے گئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے نوشکی میں گذشتہ روز یکجہتی کمیٹی کے دھرنے پر فائرنگ کا الزام سکیورٹی فورسز پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ پُرامن احتجاج پر فائرنگ کا کوئی جواز نہیں تھا۔
تاہم ڈپٹی کمشنر نوشکی امجد سومرو کے مطابق مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپ کے باعث فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔
کوئٹہ میں بلوچ کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ اس واقعہ کے خلاف نوشکی میں کوئٹہ تفتان ہائی وے پر دھرنا جاری ہے۔
بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ گوادر میں میرین ڈرائیو اور تربت شہر میں فدا شہید چوک پراحتجاج کا سلسلہ جاری ہے، جبکہ نوشکی اور رخشاں ڈویژن کے بعض علاقوں میں شٹرڈاؤن ہڑتال بھی ہو رہی ہے۔
’کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنوں کا کوئی جواز نہیں ہے‘
موبائل فون سروس کی بندش کے باعث گوادر میں تاحال دھرنے کے ختم نہ ہونے کی وجوہات سے متعلق گوادر میں انتظامیہ سے براہ راست رابطہ نہیں ہو سکا۔
تاہم محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت نے مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کیا تھا۔
اہلکار کا کہنا تھا کہ گوادر سے گرفتار ہونے والے 80 کے قریب افراد کو رہا بھی کر دیا گیا ہے۔
اہلکار نے دعویٰ کیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ جمعے کو 11 بجے تک گوادر سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں دھرنے ختم کیے جائیں گے۔
اہلکار کے مطابق انتظامیہ نے شدید دباؤ کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی سے مذاکرات کیے اور ٹرمز آف ریفرینس پر دستخط کیے لیکن تاحال گوادر میں دھرنے کو ختم نہیں کیا گیا۔
انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ کسی ناخوشگوار واقعہ پیش آنے کی صورت میں حالات دوبارہ خراب ہو سکتے ہیں۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ مطالبات تسلیم ہونے کے باوجود یکجہتی کمیٹی دھرنے اور احتجاج کیوں ختم نہیں کر رہی، لیکن ’مذاکرات کی کامیابی کے بعد ان کا کوئی جواز نہیں۔‘
دوسری جانب جمعے کو محکمہ تعلقات عامہ بلوچستان کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے۔
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ مذاکرات کے دوران بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومت کے سامنے سخت موقف رکھا، لیکن صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے بلوچستان کے عوامی مفاد اور گوادر کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نرمی کا مظاہرہ کیا۔
’مذاکرات میں طے پایا کہ تمام گرفتار شدہ افراد کی رہائی کے لیے سندھ حکومت سے بھی بات چیت کی جائے گی۔ جن افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے وہ عدالتی عمل کے بعد پانچ اگست تک رہا ہوں گے۔‘
اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ’راجی مچی کے شرکا کو احتجاج ختم کرنے کے بعد محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا، پولیس دوران احتجاج ضبط کردہ اشیا واپس کرے گی، انٹرنیٹ اور موبائل سگنل بحال کر دیے جائیں گے اور دھرنے کے بعد کسی شہری کو ہراساں یا انتقامی کارروائی کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کا کیا کہنا ہے؟
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی قیادت اس وقت گوادر میں موجود ہے۔
موبائل فون سروس کی بندش کے باعث گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم کوئٹہ میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے دھرنے میں شریک بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ان کے پُرامن دھرنے اور احتجاج جاری ہیں۔
بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کی مناسبت سے بلوچستان میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف کوئٹہ اور مستونگ کے اضلاع سے ساڑھے تین سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک گرفتار ہونے والے تمام افراد کو رہا نہیں کیا جاتا اس وقت تک پُرامن احتجاجی دھرنے جاری رہیں گے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کے نام سے ایک جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کیا گیاتھا۔
اس میں افغانستان اور ایران سے تعلق رکھنے والے بلوچوں کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اس اجتماع کے اغراض بتاتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت بلوچوں کی مبینہ نسل کشی کے علاوہ ہزاروں افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچوں کے انسانی حقوق کی پامالی کے علاوہ ان کے وسائل پر قبضہ کیا جارہا ہے۔
جب بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 27 جولائی کو گوادر کے لیے قافلے روانہ ہوئے تو حکومت کی جانب سے گوادر جانے والی تمام شاہراہوں کو بند کیا گیا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا جب حکومت کی جانب سے نہ صرف متعدد شاہراہوں کو بند کیا گیا بلکہ گوادر میں موبائل فون سروس کو معطل کرنے کے علاوہ پی ٹی سی ایل نیٹ ورک کو بھی بند کیا گیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے الزام عائد کیا ہے کہ نہ صرف گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کو دھرنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ انہیں مبینہ طور پر تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا جس سے گوادر میں ایک شخص ہلاک اور مستونگ میں سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے 21 افراد زخمی ہوئے ۔
گوادر میں لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور وہاں آنے والے قافلوں کو روکنے کے خلاف بلوچ قومی اجتماع کو دھرنے میں تبدیل کردیا گیا تھا۔
جہاں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے سیکورٹی فورسز پر تشدد کا الزام عائد کیا ہے، وہیں حکومت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کی فائرنگ سے ایک سکیورٹی اہلکار ہلاک اور ایک آفیسر سمیت 16 افراد زخمی ہوئے تھے۔