لندن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) انتہائی دائیں بازو کے پرتشدد مظاہروں اور متعدد مساجد پر حملوں کے بعد برطانوی مسلمان خوف کا شکار ہیں۔ دوسری جانب مساجد اور اسلامی مراکز کی حفاظت کے لیے مقامی غیر مسلم افراد بھی مسلمانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
چند روز قبل برطانیہ میں انتہائی دائیں بازو کے مشتعل افراد نے مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو اس وقت سے نشانہ بنانا شروع کیا تھا، جب آن لائن ایسی غیر مصدقہ افواہیں پھیل گئیں تھیں کہ گزشتہ پیر کو شمال مغربی انگلینڈ میں تین چھوٹی لڑکیوں کو چاقو سے ہلاک کرنے والا ایک نوعمر مسلمان تھا۔
مظاہرین نے منگل کی رات بھی ساؤتھ پورٹ میں واقع ایک مسجد پر پتھراؤ کیا۔ پولیس نے ان فسادات کا الزام انتہائی دائیں بازو کی ‘انگلش ڈیفنس لیگ‘ پر عائد کیا ہے۔ ساؤتھ پورٹ وہی شہر ہے، جہاں 17 سالہ ملزم ‘ایکسل آر‘ نے چاقو کے وار کرتے ہوئے تین بچیوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس ملزم کی مکمل شناخت مخفی رکھی گئی ہے لیکن برطانوی مسلمانوں کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے اب تک جاری ہیں۔
جمعے کی شام بھی دائیں بازو کے مظاہرین نے اسلامو فوبک نعرے لگائے گئے اور شمال مشرقی شہر سنڈر لینڈ میں ایک مسجد کے باہر کھڑی پولیس پر بیئر کے کین اور اینٹیں پھینکیں۔
مسلم کونسل آف برطانیہ (ایم سی بی) کی خاتون سیکرٹری جنرل زارا محمد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ”مسلم کمیونٹی اس وقت گہری تشویش میں مبتلا ہے، جو کچھ انہوں نے حالیہ دنوں میں دیکھا ہے، اس سے واقعی پریشان ہے۔‘‘
برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے ”غنڈوں کے ایک گروہ پر نفرت کے بیج بونے اور قوم کے غم کو ہائی جیک‘‘ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عہد کیا ہے، ”جو بھی پرتشدد کارروائیاں کرے گا، اسے قانون کی پوری طاقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘
جمعرات کو مسلم کونسل آف برطانیہ نے تشدد کے مزید خطرے کے پیش نظر سکیورٹی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے مساجد کے رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ بھی کی تھی۔ آج بروز ہفتہ اور کل بروز اتوار دائیں بازو کی جماعت مزید احتجاجی مظاہرے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
دھمکیاں اور مساجد کی حفاظت کا مسئلہ
جمعرات کو میٹنگ میں موجود لیڈروں میں سے ایک نے اطلاع دی کہ انہیں ”ہم آپ پر حملہ کرنے والے ہیں‘‘، ایسی دھمکی آمیز کالیں موصول ہو رہی ہیں۔ زارا محمد کے مطابق اس میٹنگ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا کہ آیا کمیونٹی سینٹرز میں بچوں کی تعلیم اور خواتین کی میٹنگز کا سلسلہ جاری رکھا جائے؟
زارا محمد نے مزید بتایا کہ برطانیہ کی تقریباً 2,000 مساجد میں سے زیادہ تر مساجد سکیورٹی گارڈز کو ادائیگی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتی ہیں۔
مساجد کو سکیورٹی فراہم کرنے والے ایک کمپنی کے ڈائریکٹر شوکت وڑائچ کے مطابق انہیں 100 سے زائد مساجد سے ”مدد اور مشورے کے لیے‘‘ کالز موصول ہو چکی ہیں۔ شوکت وڑائچ کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”بہت سی مساجد کے منتظمین نے ہمارے سامنے اپنی کمزوری اور خوف کا اظہار کیا ہے۔‘‘
غیرمسلم بھی مساجد کی حفاظت کے لیے تیار
دوسری جانب مقامی غیرمسلم افراد بھی مساجد کی حفاظت کے لیے سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ جمعہ کی شام لیورپول میں عبداللہ کوئلیم مسجد کی حفاظت کے لیے وہاں بڑی تعداد میں مقامی غیر مسلم باشندے بھی موجود تھے۔ قبل ازیں آن لائن ایسی افواہیں منظر عام پر آئی تھیں کہ جمعے کی شب اس مسجد کو نشانہ بنایا جائے گا۔
ایک مقامی شخص ڈینئل کا کہنا تھا، ”میں یہاں ایک دوسری کمیونٹی کے افراد کے ساتھ یکجہتی کے لیے آیا ہوں، جو واقعی میرے پڑوسی ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں، جو میری گلیوں میں رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو میرے شہر میں رہتے ہیں۔‘‘
ڈینئل جیسے سینکڑوں غیرمسلم مقامی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ تاہم لندن کی مرکزی مسجد میں نماز جمعہ کے اختتام پر نیوز اے ایف پی کو انٹرویو دینے والے بہت سے نمازیوں کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ چند دنوں کے اسلام مخالف تشدد سے پریشان ہیں۔
کونسل آف برطانیہ (ایم سی بی) کی خاتون سیکرٹری جنرل زارا محمد کا ان اسلامو فوبک مظاہروں کے بارے میں کہنا ہے، ”یہ دیکھنا واقعی حیران کن ہے کہ یہ کتنے مربوط اور منصوبہ بند مظاہرے ہیں۔ اتنی تیزی سے غلط معلومات پھیلانے والی جعلی خبروں کی مہم کا یہ نتیجہ نکلا ہے۔‘‘
زارا محمد کہتی ہیں کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت اچانک سے نہیں آئی۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کو ہوا دینے میں ان سیاسی رہنماؤں کا بھی کردار ہے، جو مہاجرین مخالف اور اسلامو فوبک بیانات دیتے رہتے ہیں۔
امیگریشن مخالف اور انتہائی دائیں بازو کی ”ریفارم یو کے پارٹی‘‘ کے قانون ساز لی اینڈرسن کے ایک بیان نے رواں سال کے آغاز پر ایک تنازعہ اس وقت کھڑا کر دیا تھا، جب انہوں نے لندن کے میئر صادق خان پر ”اسلام پسندوں کے زیر کنٹرول‘‘ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ گزشتہ ماہ کے انتخابات میں یہ پارٹی فقط پانچ سیٹیں ہی جیت سکی ہے۔
اسلاموفوبیا کے واقعات کو ریکارڈ کرنے والے ”ٹیل ماما پروجیکٹ‘‘ سے وابستہ ایمان عطا کا کہنا ہے، ”یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن یہ پیمانہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں، ” تارکین وطن کے بارے میں استعمال ہونے والے بیانات، ان لوگوں کو، جو انتہا پسند ہیں، انہیں باہر آنے کے لیے زیادہ حوصلہ افزائی کرنے میں مدد دیتے ہیں۔‘‘