واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے نائن الیون حملوں کے منصوبہ ساز کے ساتھ جرم کا اقرار کرنے کے بدلے میں موت کی سزا نہ دیے جانے کے معاہدے کو منسوخ کر دیا ہے۔ معاہدے کا اعلان دو روز پہلے ہوا تھا۔
خالد شیخ محمد اور ان کے دو مبینہ ساتھیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا اعلان بدھ کو ہوا تھا جس سے طویل عرصے سے چلنے والے ان مقدموں کو حل کی طرف لے جانے کا امکان پیدا ہوا تھا۔
لیکن 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے کچھ لواحقین نے اس معاہدے پر برہمی کا اظہار کیا اور ری پبلکن پارٹی کے متعدد سرکردہ رہنماؤں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے اس مقدمے کی نگران سوزن ایسکولیئر کے بھیجے گئے ایک میمو میں کہا ہے کہ “مقدمہ چلانے سے قبل ملزم کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے فیصلے کی اہمیت کے پیش نظر، میں نے یہ طے کیا ہے کہ اس طرح کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔”
اس یاداشت (میمو) میں کہا گیا ہے کہ “میں ان تین پری ٹرائل معاہدوں سے دستبردار ہوتا ہوں جس پر آپ نے 31 جولائی کو دستخط کیے تھے۔”
نائن الیون کے ملزمان بدستور گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں ہیں اور ان کے خلاف مقدمات شروع کرنے کے معاملات برسوں سے مسائل کا شکار ہیں۔
اس ہفتے نیویارک ٹائمز نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ خالد شیخ محمد، ولید بن عطش اور مصطفیٰ الحوساوی نے عمر قید کی سزا کے بدلے نائن الیون کی سازش کرنے کے جرم کا اعتراف کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے، بجائے اس کے کہ وہ کسی ایسے مقدمے کا سامنا کریں جو انہیں سزائے موت تک لے جا سکتا ہو۔
پری ٹرائل معاہدوں کے ذریعے الجھے ہوئے قانونی معاملات سے نکلنے کا راستہ نکالا گیا لیکن ان معاہدوں نے صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے سیاسی مخالفین کو تنقید کا موقع فراہم کر دیا تھا۔
ہاؤس آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین ری پبلکن قانون ساز مائیک راجرز نے آسٹن کو بھیجے گئے اپنے ایک خط میں اس معاہدے کو غیر معقول قرار دیا جب کہ ایوان کے اسپیکر مائیک جانسن نے کہا کہ یہ معاہدے 11 ستمبر 2001 کے حملوں میں ہلاک ہونے والے تقریباً 3000 افراد کے خاندانوں کے منہ پر طمانچے کے مترادف ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدار ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ انتخابی دوڑ میں شریک ان کے نائب جے ڈی وینس نے ایک انتخابی ریلی میں ان معاہدوں کو نائن الیون کے دہشت گردوں کے ساتھ پیار بھری ڈیل قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے صدر کی ضرورت ہے جو دہشت گردوں کا خاتمہ کرے نہ یہ کہ ان کے ساتھ مذاکرات کرے۔
مارچ 2003 میں پاکستان میں گرفتار کیے جانے سے قبل خالد شیخ محمد کو القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا سب سے قریبی اور قابلِ اعتماد ساتھی اور ذہین نائب سمجھا جاتا تھا۔
خالد شیخ نے گرفتاری کے بعد 2006 میں گوانتاناموبے کے حراستی مرکز پہنچنے سے پہلے کے تین سال کا عرصہ سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں گزارا تھا۔
وہ ایک تربیت یافتہ انجینئر ہے۔ اس نے امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔ وہ یہ کہہ چکا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کی اول سے آخر تک کی منصوبہ بندی اس نے کی اور وہ امریکہ کے خلاف بڑے منصوبوں میں ملوث تھا۔
دوسرے ملزم ولید بن عطش ایک یمنی نژاد سعودی ہے، جس پر الزام ہے کہ اس نے 11 ستبمر کے حملے کرنے والے دو ہائی جیکروں کو مبینہ طور پر تربیت دی تھی۔
ملزم سے پوچھ گچھ کرنے والے امریکی تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ ولید نے دھماکہ خیز مواد خریدنے اور یو ایس ایس کول پر حملہ کر کے 17 ملاحوں کو ہلاک کرنے والی ٹیم کو بھرتی کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
سن 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد اس نے پڑوسی ملک پاکستان میں پناہ لی جس کے بعد سن 2003 میں وہ وہاں سے پکڑا گیا۔ اسے سی آئی اے کے خفیہ نیٹ ورک کے قیدخانوں میں رکھا گیا۔
مصطفیٰ الحوساوی پر نائن الیوں حملوں کے لیے سرمائے کا بندوبست کرنے کا شبہ ہے۔ اسے یکم مارچ 2003 کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا اور 2006 میں گوانتاناموبے کے حراستی مرکز میں منتقلی سے پہلے اسے بھی سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں رکھا گیا تھا۔
امریکہ نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے دوران پکڑے گئے عسکریت پسندوں کو امریکہ کے زیرِ استعمال ایک الگ تھلگ بحری اڈے گوانتانا مو میں قید رکھا تا کہ انہیں امریکی قانون کے تحت حقوق فراہم کیے جانے کے مطالبے سے روکا جا سکے۔
ایک وقت ایسا بھی تھا جب اس حراستی مرکز میں تقریباً 800 قیدی رکھے جا رہے تھے۔ بعد ازاں انہیں آہستہ آہستہ دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
جو بائیڈن نے صدر بننے سے قبل گوانتانامو بے کے حراستی مرکز کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ اب بھی بدستور کھلا ہوا ہے۔