کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور دارالحکومت کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام دھرنوں اور احتجاج کا سلسلہ اتوار کو آٹھویں روز بھی جاری رہا۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ اتوار کی صبح بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں سے مذاکرات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
اُدھر نوشکی میں فائرنگ سے ایک نوجوان کی ہلاکت اور دو کو زخمی کرنے کے خلاف شاہراہ پر دھرنے کی وجہ سے کوئٹہ اور ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان کے درمیان شاہراہ تیسرے روز بھی بند رہی۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ وہ گوادر میں ہزاروں افراد کے ہمراہ موجود ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کرنے کے لیے ریاستی مشنری کا استعمال کیا جارہا ہے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ڈیڈلاک کے خاتمے میں پیش رفت نہ ہونے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اول تو حکومت نے پُرامن احتجاج پر تشدد کیا جبکہ اب ہمارے مطالبات پر عملدرآمد نہیں کررہی ہے۔ تاہم بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ حکومت نے دھرنے کے شرکا کے ساتھ حد سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا لیکن بلوچ یکجہتی کمیٹی احتجاج کو طول دینے کے لیے مطالبات پر مطالبات پیش کررہی ہے۔
’آج صبح دوبارہ مذاکرات کے لیے رابطہ ہوا‘
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک اہلکار نے بتایا کہ بلوچستان کے سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی نے نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین کے ذریعے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے دوبارہ رابطہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس رابطے کے بعد میر ظہور بلیدی کی قیادت میں حکومتی جبکہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے وفود کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ تاحال ان مذاکرات کے حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔
موبائل فون سروس کی بندش کی وجہ سے گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں سے ان مذاکرات کے حوالے سے رابطہ نہیں ہوسکا تاہم سماجی رابطوں کی میڈیا ایکس پر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا ایک پیغام سامنے آیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کیا کہا ہے؟
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دیگر رہنما ہزاروں افراد کے ہمراہ گوادر میں موجود ہیں۔ رستوں اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے گوادر شہر کا رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’کنٹرولڈ‘ میڈیا نے ہمیشہ اس طرح ہمیں پیش کیا کہ ہم متشدد ہیں اور مذاکرات نہیں چاہتے ہیں لیکن مبینہ ریاستی تشدد کے باوجود ہم شروع دن سے پر امن رہے ہیں۔
اس پیغام میں انھوں نے تشدد کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پہلے دن سے پرامن تھے لیکن ریاست کی جانب سے شاہراہوں اورانٹرنیٹ کو بند کیا گیا اورپر امن مظاہرین پربراہ راست گولیاں چلائی گئیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمارے مطالبات واضح ہیں جن میں سے ایک ان فورسز کے خلاف مقدمات کا اندراج ہے جنھوں نے مستونگ، گوادر، تلار اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں مظاہرین پر گولیاں چلائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ گوادر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ’بلاکیڈ‘ کا خاتمہ کیا جائے اور یہ ضمانت دی جائے کہ ریاستی فورسز مزید طاقت اور تشدد کا استعمال نہیں کریں گے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں، ہمدردوں اور گوادر کے رہائشیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت یہ اعتراف کرے کہ اس نے ایک پرامن تحریک کو کچلنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔
انھوں نے مطالبہ کیا کہ ان تمام افراد کو رہا کیا جائے جو کہ بلوچ قومی اجتماع کے انعقاد سے پہلے یا بعد میں گرفتار کیئے گئے اور فورسز نے جن لوگوں کی گاڑیوں اور املاک کو جو نقصان پہنچایا اس کا ازالہ کیا جائے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بجائے ریاستی ادارے مزید طاقت کا استعمال کر رہے ہیں اور مجھے اور ’بی وائی سی‘ کی قیادت کو گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو خطرہ ہے کیونکہ اب ہمارے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے جواز فراہم کرنے کے لیے ریاستی مشینری کو استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اب حالات نواب بگٹی کے دور کے مشابہ ہیں جب ایک طرف مذاکرات کا دعویٰ کیا جا رہا تھا جبکہ دوسری جانب طاقت کا استعمال کیا گیا۔
ادھر کوئٹہ میں یونیورسٹی آف بلوچستان کے سامنے دھرنے میں شریک بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ گوادر، کوئٹہ ، تربت اور نوشکی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنے جاری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کے سامنے دھرنے میں آج شام کو ایک قومی سیمنار منعقد کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کی جانب سے پر امن مظاہرین پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ نوشکی میں پر امن مظاہرین پر گولیاں چلائی گئیں جس میں ایک ہلاک اور دو زخمی ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ براہ راست گولیاں چلانے کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج میں شریک لوگ پر امن رہے اور مطالبات تسلیم ہونے تک پر امن احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ان کے مطابق ’بلوچ یکجہتی کمیٹی کے دھرنوں کے شرکا کے ساتھ حد سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا گیا‘۔
برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی بات کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیر داخلہ میرضیا اللہ لانگو نے کہا کہ وہ خود کئی روز تک گوادر میں اس لیے مقیم رہے تا کہ کوئی ایسا کام نہ ہو جس کی وجہ سے حالات خراب ہوں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ’ایف سی، پولیس اور لیویز فورس کو شاباش دیتے ہیں کہ مظاہرین کی جانب سے تمام تر تشدد کے باوجود انھوں نے صبر اور برداشت سے کام لیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات ہوئے اور معاہدے پر دستخط کے بعد انھوں نے اعلان بھی کیا کہ جمعہ کو 11 بجے دھرنے کو ختم کیا جائے گا۔
ان کے مطابق ’ریاست نے حقیقی معنوں میں ماں جیسا سلوک کیا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے بہت سارے مطالبات تسلیم کیے گئے تا کہ معاملات پر امن طریقے سے حل ہوں۔ ہم نے راستے کھلوا دیے اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ نے متعلقہ حکام کو موبائل فون سروس کھولنے کے لیے چِھٹی بھی تحریر کی‘۔
انھوں نے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کے بعد وہ گوادر سے نکل گئے لیکن بیسمیہ پہنچنے پر جب انھوں نے گوادر رابطہ کیا تو انھیں بتایا گیا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنے کو ختم نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی اینڈ ڈی کے وزیر میر ظہور بلیدی سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ انھوں نے مزید مطالبات پیش کیے ہیں اور ’ایسا لگتا ہے ان کے مطالبات ہر روز بچے دے رہے ہیں‘۔
انھوں نے کہا کہ بہت زیادہ لچک کا مظاہرہ کرنے کے باوجود بلوچ یکجہتی کمیٹی نے احتجاج کو ختم نہیں کیا جس سے یہ لگتا ہے کہ وہ دھرنے ختم نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کو مختلف حیلوں بہانوں سے طول دینا چاہتے ہیں۔