راولپنڈی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے الزام عائد کیا ہے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی قیادت دہشتگرد تنظیموں، غیرقانونی کام کرنے والے عناصر، سمگلرز اور بھتہ خوروں کی ’پراکسی‘ یعنی گماشتہ ہے، جو بیرون فنڈنگ لے کر فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی ہے۔
منگل کو راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ میں یہ واضح کردوں یہ بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اس کی نام نہاد لیڈرشپ دہشتگرد تنظیموں، الیگل سپیکٹرم اور کریمنل مافیا کی ایک ’پراکسی‘ ہے اور اس کے علاوہ یہ کچھ نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس (کمیٹی) کو کام یہ ملا ہے کہ جو قانون نافذ کرنے والے ادارے، یہ جو ایجنسیز دہشتگردی کے خلاف کریمنل مافیا، بھتہ خوروں کے خلاف کام کر رہے ہیں، ان کو بدنام کیا جائے، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جائے، جو بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے ہو رہے ہیں ان کو متنازع بنایا جائے۔‘
فوج کے ترجمان کے مطابق ’اس (کمیٹی) کا طریقہ کار یہ ہے کہ بیرونی بیانیے اور بیرون فنڈنگ پر ایک جتھا جمع کرو، اس جتھے کے گرد معصوم شہریوں کو ورغلاؤ، ریاست کی رٹ کو چیلنج کرو، پتھراؤ کرو، آگ لگاو، بے جا مطالبات پیش کرو، اور جب ریاست آگے سے جواب دے تو معصوم بن جاؤ۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ اور پھر (ان کے) ساتھ جو بیرونی ایجنڈا والے پیچھے بیٹھے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے نام پر وہ ان کے حق میں بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی وہ تماشا ہے جو آپ نے گذشتہ دنوں گوادر میں دیکھے۔‘
انھوں نے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کی ’فوٹیج‘ دکھاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ یہ کمیٹی پرتشدد مظاہروں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور جھوٹ کی بنیاد پر آگے بڑھتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’انڈین سوشل میڈیا اور فتنہ خوارج ان کی حمایت میں آتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت بلوچستان نے کہا کہ احتجاج آپ کا حق ہے۔ سڑکیں بلاک نہ کریں۔ طے شدہ جگہ پر آئیں، اپنے مطالبات پیش کریں۔ انھوں نے سڑکیں بلاک کیں، لوگوں کو تکالیف ہوئیں، زائرین پر پتھراؤ کیا۔ آگ لگائی۔ اور اپنی ہی ایف سی پر حملہ کیا۔ سبی کا سپاہی بلوچ کو پرتشدد ہجوم نے شہید کر دیا۔‘
فوجی ترجمان کے مطابق ’حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بڑے طریقے سے انھیں ہینڈل کیا، انھیں لاشیں نہیں دیں جو وہ لینے کے لیے آئے تھے۔‘ ایک سوال کے جواب میں فوجی ترجمان نے کہا کہ ’گوادر میں اس وقت حکومت کی رٹ مکمل بحال ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔‘
مذاکرات کا دوسرا دور، گوادر اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں دھرنے جاری
حکومت اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے درمیان مذاکرات کے دوسرے دور کے باوجود تاحال بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر اور دیگر شہروں میں دھرنے جاری ہیں۔ گذشتہ روز مذاکرات بلوچستان کے سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں کے درمیان ہوئے تھے۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما بیبرگ بلوچ کا کہنا ہے کہ اگرچہ گذشتہ روز حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے لیکن تاحال مختلف مقامات پر ان کے پر امن دھرنے جاری ہیں۔
گوادر شہر میں اگرچہ موبائل فون سروس تاحال بند ہے لیکن پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن کی سروس اور اس پر انٹرنیٹ کو بعض علاقوں میں بحال کردیا گیا ہے۔حکومت کی جانب سے راستوں کی بندش جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کی وجہ سے گوادر میں معمولات زندگی بری طرح سے متائثر ہو گئی تھیں۔
تاہم مقامی صحافیوں کے مطابق گذشتہ روز سے گوادر شہر میں معمولات زندگی بحال ہونا شروع ہوگئی ہیں۔
محکمہ داخلہ حکومت بلوچستان کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ روز نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین کی توسط سے حکومت بلوچستان اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں کے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
حکومت بلوچستان کی جانب سے مذاکرات کی قیادت بلوچستان کے سینیئر وزیر میر ظہور بلیدی نے کی تھی۔
موبائل فون سروس بند ہونے کی وجہ سے اگرچہ میرظہور بلیدی اور گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنمائوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ تاہم بعض سرکاری حکام کے مطابق گرفتار افراد کی رہائی اور ایف آئی آرز کے اندراج کے حوالے سے بعض نکات ابھی تک طے ہونے باقی ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اہم مطالبات میں بلوچ قومی اجتماع کی مناسبت سے تمام گرفتار افراد کی رہائی، تمام راستوں کا کھولنا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کی ہلاکت اور زخمی کارکنوں کی ایف آئی آر گولی چلانے والے فورسز کے اہلکاروں کے خلاف درج کرنا شامل ہیں۔
مذاکرات کے اس دوسرے دور کے باوجود تاحال بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دھرنوں کو ختم نہیں کیا بلکہ یہ بلوچستان میں پانچ مقامات پر جاری ہیں۔
بیبرگ بلوچ نے بتایا کہ اس وقت گوادر اور کوئٹہ کے علاوہ جن علاقوں میں دھرنے جاری ہیں ان میں تربت، نوشکی اور حب چوکی شامل ہیں ۔
بیبرگ بلوچ نے بتایا اگرچہ مذاکرات ہورہے ہیں لیکن بعض نکات نے ابھی طے ہونا ہے اس لیے تا حال یکجہتی کمیٹی کی مرکزی قیادت نے احتجاجی دھرنوں کو ختم نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات جائز ہیں جن کو تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ان کے بقول نہ صرف پر امن لوگوں پر گولیاں چلائی گئیں بلکہ حالات بھی ان رکاوٹوں کی وجہ سے خراب ہوئے جو کہ حکومت اور اس کے اداروں کی جانب سے ڈالی گئی تھیں۔
’گوادر میں معمولات زندگی معمول پر آنا شروع ہوگئے ہیں‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ راجی مچی یعنی بلوچ قومی اجتماع کے نام سے جس جلسے کا اعلان کیا گیا تھا اس میں گوادر کے باہر سے لوگوں کی شرکت کو روکنے کے لیے حکومت نے متعدد شاہراہوں کو بند کیا تھا۔
سرکاری حکام کی جانب سے شاہراؤں کی بندش کی جواز کے حوالے سے سرکاری حکام نے یہ کہا تھا کہ یہ لوگوں کی تحفظ کے لیے اٹھائے گئے۔
شاہراؤں کی بندش اور گوادر میں احتجاج کی وجہ سے معمولات زندگی سب سے زیادہ گوادر شہر اور ضلع کے دیگر علاقوں میں متاثر ہوئی تھیں جبکہ ان کی وجہ سے مکران ڈویژن کے دیگر علاقوں میں بھی بڑی حد تک معمولات زندگی پر اثر پڑا تھا۔
گوادر اور مکران ڈویژن کے تمام اضلاع کا زیادہ تر ضروریات زندگی کے لیے انحصار کراچی یا بلوچستان کے دیگر علاقوں پر ہے۔شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے ان علاقوں میں خوراکی اشیا کی قلت پیدا ہونے کے علاوہ اس سے بلوچستان کے متعدد علاقوں میں ایرانی تیل کی بھی قلت پیدا ہوگئی۔
گذشتہ روز گوادر سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ کراچی سے خوراکی اشیا لانے والی گاڑیوں کو کیوں روکا جارہا ہے؟
انھوں نے خود گوادر شہر میں بھی رکاوٹوں پر احتجاج کیا تھا۔
تاہم گوادر شہر میں گذشتہ روز سے معمولات زندگی معمول پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی بہرام بلوچ نے بتایا کہ گوادر شہر میں بازار اور مارکیٹیں کھل گئی ہیں۔ کوئٹہ کراچی ہائی وے بھی جزوی طور پر بحال ہوئی ہے اور وہاں سے راشن کی گاڑیاں آرہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ گوادر میں موبائل فون سروس تاحال بحال نہیں ہوئی ہے تاہم پی ٹی سی ایل کی لینڈ لائن اور اس پر انٹرنیٹ سروس بحال ہوگئی ہے۔
’دھرنے کو پر امن طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے کہا ہے گوادر میں احتجاج شروع ہوا تو وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر مذاکرات کے لیے کئی دن تک گوادر میں ہی موجود رہا۔
اپنے ایک ویڈیو بیان میں انھوں نے کہا کہ گوادر میں آل پارٹیز کے نمائندوں، رکن صوبائی اسمبلی مولانا ہداہت الرحمان کی موجودگی میں مذاکرات کیے گئے۔
انھوں نے کہا کہ ’دھرنے میں موجود خواتین ہماری مائیں بہنیں اور بچے ہمارے ہی لوگ ہیں۔ ہم دھرنے کو پر امن طور پر ختم کروانا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے وہ مطالبات بھی تسلیم کیے جو ماننے والے نہیں تھے اور ہم نے دھرنے والوں کے مطالبے پر تمام گرفتار افراد کو رہا کر دیا اور شاہراہیں بھی کھول دیں لیکن تحریری معاہدہ ہونے کے باوجود دھرنا ختم نہیں کیا گیا۔
وزیر داخلہ نے بلوچستان اور گوادر کے عوام سے اپیل کی کہ احتجاجی اورنفرت کی سیاست کرنے والوں کو مسترد کرتے ہوئے بلوچستان کی ترقی کا سوچیں۔
وزیر داخلہ کے مطابق ’جانے انجانے میں کچھ لوگ انڈین ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں۔ سی پیک کے منصوبے ہماری ترقی کے ضامن منصوبے ہیں۔ انڈیا سی پیک کی تکمیل میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں مل کر بیرونی سازشوں کو ناکام بنانا ہو گا۔‘