شیخ حسینہ واجد مستعفی: بنگلا دیشی آرمی چیف نے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کردیا

ڈھاکا (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/نیوز ایجنسیاں) بنگلہ دیشی فوجی حکام نے کہا ہے کہ ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یوں 15 برس سے جاری ان کے اقتدار کا خاتمہ ہو گیا۔

بنگلہ دیش میں بدامنی جاری، مزید بیس افراد ہلاک ہو گئے، پولیس

بنگلہ دیشں میں پیر کے روز وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کے بعد دارالحکومت ڈھاکہ میں ہونے والے مظاہروں میں کم ازکم بیس افراد ہلاک ہو گئے۔ ڈھاکہ پولیس کے ایک افسر نے اے خبر رساں ادارے ایف پی کو بتایاکہ یہ ہلاکتیں مظاہرین کی جانب سے عمارتوں پر دھاوا بولنے کے دوران ہوئیں۔

ڈھاکہ میڈیکل کالج ہسپتال میں موجود پولیس انسپکٹر بچو میاں نے ان اموت سے متعلق مزید تفصیلات بتائے بغیر کہا، ’’ہمیں یہاں 20 لاشیں ملی ہیں۔‘‘ تاہم عینی شاہدین اور دیگر پولیس افسران نے اطلاع دی ہے کہ ہجوم نے حریف گروپوں پر انتقامی حملے شروع کر دیے ہیں۔

خیال رہے کہ اتوار کے روز بنگلہ دیش میں حکومت مخالف پر تشدد مظاہروں کے دوران صرف ایک دن میں تقریباً 100 افراد مارے گئے تھے۔ یہ ہلاکتیں شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کی سکیورٹی فورسز اور تب حکمراں جماعت کے حامیوں کے ساتھ جھڑپوں میں ہوئیں۔

اس احتجاج کو گزشتہ ماہ سرکاری ملازمتوں میں مخصوص کوٹے کے خلاف طلبہ کے ملک گیر احتجاج کی ہی ایک کڑی قرار دیا جارہا تھا، جس میں تشدد کے واقعات کے دوران کم از کم 150 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے۔

عبوری حکومت تشکیل دی جائے گی، بنگلہ دیشی آرمی چیف

بنگلہ دیش کے آرمی چیف وقار الزماں نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کے مستعفی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔ آج پیر کے روز قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ وہ نئی حکومت کی تشکیل پر صدر سے رہنمائی حاصل کریں گے۔

آرمی چیف کا کہنا تھا، ’’میں پوری ذمہ داری لے رہا ہوں۔‘‘ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا وہ خود نگراں حکومت کی سربراہی کریں گے۔

وقار الزماں نے حکومت مخالف مظاہروں کے دوران ہلاک ہونے والے تمام افراد کے لواحقین کے لیے انصاف کی فراہمی کا وعدہ بھی کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوامی مقامات سے فوج ہٹا دی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا، ’’ فوج پر اعتماد رکھیں، ہم تمام ہلاکتوں کی تحقیقات کریں گے اور ذمہ داروں کو سزا دیں گے۔‘‘

انہوں نے عوام کو یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’میں نے حکم دیا ہے کہ فوج اور پولیس کی جانب سے فائرنگ نہیں کی جائے گی۔‘‘

اپنے خطاب میں انہوں نے طلبہ سے پرسکون رہنے اور گھر جانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’ملک کے لیے حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے، جب ملک میں بڑے پیمانے پر پر تشدد مظاہروں کے دوران مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں پولیس سمیت درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد شیخ حسینہ مستعفی ہو گئی ہیں اور ان کے ملک سے فرار ہونے کی اطلاعات ہیں۔

واشنگٹن میں واقع ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حسینہ کی رخصتی سے بنگلہ دیش میں ’’ایک بڑا خلا پیدا ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’اگر یہ اقتدار کی ایک پرامن منتقلی ہے، یعنی انتخابات کے انعقاد تک ملک ایک عبوری سیٹ اپ سنبھالے ، تو استحکام کے خطرات معمولی ہوں گے اور اس کے نتائج محدود ہوں گے۔

‘‘ کوگل مین کے بقول ’’ اگر کوئی پرتشدد منتقلی اقتدار یا غیر یقینی کی صورتحال جنم لیتی ہے، تو اس سے مزید اندرونی اور بیرونی عدم استحکام اور مسائل کا خطرہ ہو سکتا ہے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں