بغداد (ڈیلی اردو) امریکی حکام کی جانب سے جاری ہونے والے ایک حالیہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عراق میں ایک امریکی فوجی اڈے پر مشتبہ راکٹ حملے کے نتیجے میں متعدد امریکی اہلکار زخمی ہو گئے ہیں۔
امریکہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے ایک بیان میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ حماس اور حزب اللہ کے سینئر رہنماؤں کی ہلاکتوں کے بعد مشرق وسطیٰ ایک نازک موڑ پر آ کھڑا ہوا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر جو بائیڈن کو عراق میں امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے مشتبہ حملے کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
ایک بیان میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ انھیں اور نائب صدر کملا ہیرس کو ’مشرق وسطیٰ میں ہونے والی پیش رفت‘ کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
صدر نے کہا کہ ہمیں ایران اور اس کے آلہ کاروں کی جانب سے درپیش خطرات، علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کی سفارتی کوششوں اور اسرائیل پر دوبارہ حملے کی صورت میں اس کی حمایت کرنے کی تیاریوں کے بارے میں تازہ ترین معلومات موصول ہوئی ہیں۔
امریکی حکام نے بی بی سی کے پارٹنر سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ مغربی عراق میں الاسد ایئر بیس پر راکٹ حملہ ہوا اور ابھی امریکی فوجی اڈے پر حملے سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔
تاہم اس حملے کا ذمہ دار کون ہے یا اس کے پیچھے کون ہے اس بارے میں تاحال کوئی بیان امریکہ کی جانب سے سامنے نہیں آیا ہے۔
سکیورٹی ذرائع نے سی بی ایس کو بتایا کہ بیس پر دو کٹیوشا راکٹ داغے گئے اور ایک راکٹ بیس کے اندر گرا۔
امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ عراق کے الاسد ایئر بیس پر امریکی اور اتحادی افواج پر مشتبہ راکٹ حملہ کیا گیا۔‘
ابتدائی اطلاعات کے مطابق متعدد امریکی اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کتنے امریکی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی فوج کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ اس وقت کسی کے شدید زخمی یا کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔