ینگون (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) میانمار کی فوج نے کہا ہے کہ چین کی سرحد کے قریب واقع ایک بڑے فوجی مرکز پر باغیوں کے حملے کے بعد سے وہاں کے سینئر فوجی عہدے داروں سے رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ جب کہ باغیوں نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے ایک اہم علاقائی فوجی ہیڈکواٹر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
فوجی ہنتا کی طرف سے علاقائی فوجی کمانڈ سے رابطے ٹوٹنے کے اعتراف کو شکست کے طور پر دیکھا جا رہا ہےجو میانمار میں رونما ہونے والا ایک شاذ و نادر واقعہ ہے۔
میانمار نیشنل ڈیموکریٹک الائنس آرمی (ایم این ڈی اے اے) کے طور پر معروف باغی گروپ نے 25 جولائی کو فوجی مرکز پر قبضے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مرکز پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہفتے کے روز انہوں نے لاشیو نامی ایک قصبے میں قائم فوجی مرکز میں اپنے فوجیوں کی موجودگی کی تصویریں جاری کیں تھیں۔
لاشیو کے آس پاس کئی ہفتوں تک جاری رہنے والی شدید لڑائیوں کے بعد فوجی ترجمان زاؤ من تن نے پیر کے روز بتایا کہ فوجی دستوں کو زیر محاصرہ شمال مشرقی فوجی کمانڈ کے افسروں کے ساتھ رابطہ کرنے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تاہم افسروں کی تعداد نہیں بتائی گئی۔
پیغام رسانی کے ایک پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر پوسٹ کیے گئے اپنے ایک آڈیو پیغام میں فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ‘ یہ معلوم ہوا ہے کہ سینئر حکام کو گرفتار کر لیا گیا ہے‘۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ فوجی ہنتا صورت حال کی تصدیق کے لیے کام کر رہی ہے۔
میانمار کے حکمران فوجی جرنیل غیرمعمولی دباؤ کی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ فوج نے تین سال ایک فوجی بغاوت کے ذریعے سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ جس کے بعد سے انہیں فوج کے خلاف بڑھتی ہوئی بغاوت اور گرتی ہوئی معیشت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فروری 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد مظاہروں کو دبانے کے لیے تشدد اور طاقت کے بے دریغ استعمال نے ایک مزاحمتی تحریک کو جنم دیا اور ہزاروں نوجوان فوج کے خلاف لڑنے کے لیے پہلے سے موجود کئی باغی نسلی گروپوں کے ساتھ شامل ہو گئے۔
فوج کے خلاف لڑنے والے باغی گروپ نے اپنے جنگجوؤں کی تصویروں کے ساتھ سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ایم این ڈی اے اے‘ نے دشمن کے باقی ماندہ فوجی دستوں کا صفایا اور شمال مشرقی فوجی ہیڈکوارٹر پر مکمل کنٹرول کر کے مکمل کامیابی حاصل کر لی ہے‘۔
لاشیو کے علاقائی فوجی ہیڈکواٹر کا باغیوں کے قبضے میں چلا جانا، میانمار کی فوجی جنتا کے لیے پہلی شکست ہے جس کے ملک بھر میں 14 علاقائی فوجی ہیڈکوارٹرز ہیں۔ فوجی حکمرانوں کو چینی سرحد کے ساتھ واقع شمالی ریاست شان میں گزشتہ سال سے مسلسل نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
باغیوں نے فوجی ہنتا کے خلاف اپنی مسلح کارروائی ،جسے آپریشن 1027 کہا جاتا ہے، اس وقت روک دی تھی جب چین نے جنگ بندی میں مدد کے لیے مداخلت کی تھی۔ لیکن جون میں انہوں نے اپنی لڑائی دوبارہ شروع کر دی۔ چین نے لڑائیوں کے خاتمے اور مذاکرات پر زور دیا ہے۔
امریکہ کے ایک تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے تجزیہ کار جیسن ٹاور کہتے ہیں کہ میانمار کی شمال مشرقی فوجی کمانڈ کا اتنی تیزی سے زمین بوس ہونا، مزاحمت کرنے والوں اور پڑوسی ملکوں پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ میانمار کی فوج کتنی کمزور ہو چکی ہے۔
انہوں نے فوجی ہنتا کے سربراہ من آنگ ہینگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لاشیو کی شکست ان کے لیے خاتمے کا آغاز بن سکتی ہے۔
حکومت مخالف تین باغی نسلی گروپوں نے جو تھائی لینڈ اور بھارت کی سرحد کے قریب میانمار میں فوجی حکمرانوں کے خلاف لڑ رہے ہیں، لاشیو کی فتح پر ایم این ڈی اے اے کو مبارک باد دی ہے۔
کاچن، کیرن اور چن گروپوں کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اس وقت تک اپنی جنگ جاری رکھیں گے جب تک فوجی ہنتا کو شکست نہیں ہو جاتی۔