واشنگٹن (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے/اے پی) امریکہ سفارتی رابطوں سے ایران کو باور کرانے کی کوشش میں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی تہران حکومت کے مفاد میں نہیں لیکن ایران کا اصرار ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف ’مجوزہ انتقامی کارروائی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا‘۔
تہران میں حماس کے سربراہ اساعیل ہنیہ کی ایک حملے میں ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھ چکی ہے۔ حماس اور ایران نے اس حملے کا الزام اسرائیل پر دھرتے ہوئے انتقامی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔
تاہم امریکہ کی کوشش ہے کہ ایران ایسا کوئی اقدام نہ کرے، جس سے خطے میں پہلے سے جاری بحرانی صورتحال مزید ابتر ہو جائے۔
امریکی وزارت خارجہ نے سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت مشرق وسطی ایک ”نازک وقت‘‘ سے گزر رہا ہے۔ اس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت اپنے پارٹنرز کے توسط سے ایران کو یہ پیغام پہنچانے کی کوشش میں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی ایران کے مفادات کے بھی خلاف ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے خاتمے کی خاطر تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ اسرائیل پر ایران کے ممکنہ حملے کے پیش نظر بلنکن نے کہا کہ ”تمام فریق کشیدگی میں اضافے سے باز رہیں۔‘‘
امریکی صدر کی قومی سلامتی کی ٹیم سے مشاورت
دوسری جانب مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے تناظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے قومی سلامتی کی ٹیم سے خصوصی مشاورت کی ہے۔
اس میٹنگ کے بعد امریکی صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں اسرائیل پر ممکنہ حملے کی صورت میں اسرائیل کے دفاع کے حوالے سے کی جانے والی تیاریوں کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا ہے۔
ادھر وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بتایا ہے کہ حکام کشیدگی کو روکنے کے لیے 24 گھنٹے کام کر رہے ہیں۔
ایران انتقامی کارروائی کرے گا؟
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے ملکی سرحدوں کی خلاف ورزی پر سمجھوتہ نہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جہاں تک ہماری علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کا تعلق ہے تو ہم کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘‘
کنعانی نے مزید کہا، ”اگرچہ ایران خطے میں کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا لیکن ثالثی کی کوششوں کے باوجود اسماعیل ہنیہ کے ایران میں قتل پر اسرائیل کو سزا ضرور دی جائے گی۔‘‘
ادھر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے خبردار کیا ہے کہ حملہ کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔