برسلز (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) اسرائیل کو مدعو نہ کیے جانے کے بعد مغربی ممالک نے بھی ناگاساکی میں منعقدہ تقریب میں سفراء نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کی بدھ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے ناگاساکی پر ایٹمی حملے کی 79 ویں برسی کے موقعے پر جاپان میں ہونے والی ایک تقریب میں اپنے سفراء کو نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ تقریب ناگاساکی کے ہی شہر میں جمعے کے روز منعقد کی جائے گی۔
مغربی ممالک کا فیصلہ اسرائیل کو اس تقریب میں شرکت کے لیے مدعو نہ کیے جانے کے بعد سامنے آیا ہے۔
ناگاساکی کے میئر شیرو سوزوکی نے گزشتہ ہفتے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیلی سفیر گیلاد کوہن کو غزہ تنازعے پر ممکنہ احتجاج کے خدشے کی وجہ سے تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ یہ فیصلہ سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ اس لیے کیا گیا ہے تا کہ یہ تقریب ”پر امن‘‘ ماحول میں ہو سکے۔
کوہن کو تاہم ہیروشیما میں منگل کو ہونے والی ایک علیحدہ تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
’ تقریب کو سیاسی رنگ دیا گیا ہے‘
ناگاساکی میں حکام کے فیصلے کے بعد منگل کے روز جاپان میں امریکی اور برطانوی سفارت خانوں کی جانب سے جاری کردہ بیانات میں کہا گیا کہ اس تقریب میں ان دونوں ممالک کے سفراء کی جگہ نچلے درجے کے سفارت کار شرکت کریں گے۔
امریکی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے اس حوالے سے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا،”ناگاساکی کے میئر نے اسرائیلی سفیر کو مدعو نہ کر کے اس تقریب کو سیاسی رنگ دیا ہے‘‘ اور اب امریکی سفیر رحم ایمانوئل اس میں شرکت نہیں کریں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایمانوئل تاہم ٹوکیو میں منعقدہ ایک علیحدہ تقریب میں شریک ہوں گے۔
اسی طرح برطانوی سفارت خانے کے بیان میں کہا گیا ہے کہ سفیر جولیا لانگ باٹم بھی ناگاساکی میں منعقدہ تقریب میں شرکت نہیں کریں گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی سفیر کو مدعو نہ کیے جانے سے ایسا ”گمراہ کن‘‘ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ جیسے وہ روس اور بیلاروس کی صف میں ہی شامل ہے، جو اسرائیل کے علاوہ واحد دو ممالک ہیں، جنہیں اس سال اس تقریب میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔
فرانسیسی سفارت خانے کے ایک نمائندے نے بھی اے ایف پی سے گفتگو کے دوران اسرائیلی سفیر کو نہ بلانے کے فیصلے کو ”افسوس ناک اور قابل اعتراض‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی سفیر کے ایک ماتحت ان کی جگہ اس تقریب میں شرکت کریں گے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق آسڑیلیا، اٹلی، کینیڈا اور یورپی یونین نے بھی یہی فیصلہ کیا ہے۔
ان تمام ممالک نے امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سمیت اس حوالے سے ناگاساکی کے میئر کو پچھلے مہینے ایک مشترکہ خط بھی لکھا تھا، جس میں سخت الفاظ کا استعمال کیا گیا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق اس خط میں تنبیہ کی گئی تھی کہ اسرائیل کو تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا تو ان ممالک کی جانب سے بھی اس میں اعلیٰ سطح کی نمائندگی مشکل ہو گی۔
علاوہ ازیں، ناگاساکی میں ہونے والی تقریب میں مدعو نہ کیے جانے کے بعد پچھلے ہفتے کوہن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس فیصلے سے ”دنیا کو غلط پیغام دیا جا رہا ہے۔‘‘ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر انہوں نے لکھا، ”جاپان کا ایک قریبی دوست اور ہم خیال قوم ہونے کے ناطے‘‘ اسرائیل اس تقریب میں کئی سال سے شرکت کرتا رہا ہے۔
انہوں نے امریکی خبر رساں ادارے سی این این سے بھی اس بارے میں بات کی اور کہا کہ ان کی شرکت سے منسلک کیے گئے سکیورٹی خدشات ”من گھڑت ہیں‘‘ اور وہ اس بات پر حیران ہیں کہ سوزوکی اس تقریب کو ”سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘