کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں پولیس اور خفیہ ادارے اس شہری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر منگل کو امریکہ میں امریکی حکومتی اہلکار یا سیاست دان کے قتل کی سازش کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
امریکہ میں 46 سالہ پاکستانی شہری آصف رضا مرچنٹ کی گرفتاری نے اس کے آبائی شہر کراچی پولیس کے حکام کو بھی حیرانی میں مبتلا کر دیا ہے۔
وائس آف امریکہ کو شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دو سے زائد ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ آصف رضا مرچنٹ بینکر تھے اور آخری بار بینک آف پنجاب سے منسلک رہے تھے۔
پاکستانی حکام کے مطابق آصف رضا مرچنٹ کراچی کے علاقے کورنگی انڈسٹریل ایریا میں واقع بینک کی برانچ میں مینیجر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔
آصف نے گزشتہ سال ہی ملازمت چھوڑ دی تھی۔ ملزم نے جون 2002 میں اپنے کریئر کا آغاز میٹروپولیٹن بینک سے کیا اور اس کے بعد وہ سلک بینک اور فیصل بینک سے بھی وابستہ رہے۔
‘ملزم ایران، عراق اور متعدد بار امریکہ جاتا رہا ہے’
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ میں گرفتار شہری کی ٹریول ہسٹری بتاتی ہے کہ وہ ایران، عراق اور شام کے کئی سفر کر چکا تھا۔
سن 2023 میں اس کا ایران دو بار جانا ہوا تھا جس میں سے ایک دفعہ ہوائی اور ایک بار زمینی راستے سے وہ ایران داخل ہوا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نے کراچی سے اپریل کے شروع میں امریکہ کا سفر کیا تھا۔ جب کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی بار امریکہ کا سفر کر چکا تھا۔
سرکاری ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ آصف رضا مرچنٹ کے دو خاندان ہیں۔ ان میں سے ایک ایران میں اور دوسرا پاکستان میں مقیم ہے۔ اس بارے میں کام کرنے والے ایک سیکیورٹی ادارے نے کراچی میں مرچنٹ کے خاندان کے دو گھروں کا کھوج لگا لیا ہے۔ تاہم ان کے اہلِ خانہ کے بارے میں کوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں کہ وہ کسی گھر میں مقیم ہیں یا نہیں۔
دوسری جانب وفاقی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) نیو یارک فیلڈ آفس کی قائم مقام اسسٹنٹ ڈائریکٹر کرسٹی کرٹس نے اپنے بیان میں کہا کہ خوش قسمتی سے آصف مرچنٹ نے ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اس سازش کا پتا چل سکا۔
آصف مرچنٹ کو اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ قتل کے منصوبے کے لیے مطلوبہ شخص سے ملاقات اور پلان تیار کر کے 12 جولائی کو امریکہ چھوڑ رہا تھا۔
محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ آصف مرچنٹ کے پلان کے مطابق امریکی سیاسی شخصیت کا قتل اگست کے آخر یا ستمبر کے پہلے ہفتے میں کیا جانا تھا۔ سازش کا علم ہونے پر امریکی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ایک اہلکار نے خود کو ‘ہٹ مین’ یا ‘کرائے کا قاتل’ ظاہر کر کے آصف سے پانچ ہزار ڈالرز وصول کیے۔
امریکی محکمہ انصاف نے الزام عائد کیا ہے کہ اس پاکستانی شہری کے ایران سے قریبی تعلقات تھے اور وہیں سے اس قتل کی سازش تیار کرنے کے احکامات ملے تھے۔
امریکی اسسٹنٹ اٹارنی میتھیو جی اولسن کا کہنا تھا کہ غیر ملکی کرداروں کی جانب سے سابق اور موجودہ عہدے داروں کو نشانہ بنانا امریکی خودمختاری کی توہین ہے اور ہمارے جمہوری ادارے اور محکمہ انصاف اس گھناؤنی سرگرمی کو بے نقاب کرنے اور اس میں خلل ڈالنے کے لیے ہر ممکن ہتھیار استعمال کریں گے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ ملزم کا تعلق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملے سے ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے رات گئے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستانی حکام امریکی حکام سے رابطے میں ہیں اور مزید تفصیلات کا انتظار کیا جارہا ہے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان نے امریکی حکام کے بیانات کو بھی نوٹ کیا ہے کہ یہ ایک جاری تحقیقات کا حصہ ہے۔ اور اس حوالے سے کوئی بھی ردِعمل دینے سے پہلے اس انفرادی شخص سے متعلق معلومات کا حصول بھی ضروری ہے۔