واشنگٹن (ڈیلی اردو/ وی او اے) امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ ایران اور اسرائیل دونوں کو تنازع کی شدت میں اضافے سے گریز کرنا چاہیے۔
منگل کو ایک بیان میں امریکی وزیرِ خارجہ نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے اتحادی اسرائیل کو براہ راست مخاطب کیا ہے۔
اینٹنی بلنکن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ کسی کو بھی تنازع نہیں بڑھانا چاہیے۔
ان کے بقول یہ پیغام ایران کو پہنچانے کے لیے امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بھرپور سفارت کاری میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے یہ پیغام اسرائیل کو بھی براہ راست پہنچا دیا ہے۔
تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد ایران مسلسل اسرائیل کے خلاف کارروائی کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ ایران نے اسماعیل ہنیہ کے قتل کا الزام اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے کیوں کہ حماس کے رہنما کا قتل ایسے وقت میں ہوا ہے جب غزہ میں 10 ماہ سے جاری لڑائی میں جنگ بندی کے امکانات پیدا ہو گئے تھے اور مذاکرات میں پیش رفت کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے صحافیوں سے مزید گفتگو میں مزید کہا کہ اسرائیل کی سیکیورٹی کے لیے امریکہ کا آہنی عزم برقرار ہے۔
ان کے بقول امریکہ دہشت گرد گروہوں یا ان کے اسپانسرز کے اسرائیل پر حملوں کے خلاف دفاع اسی طرح جاری رکھے گا جس طرح وہ اپنے فوجیوں کا دفاع کرتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں سب کو سمجھنا چاہیے کہ مزید حملوں سے تنازع برقرار رہے گا اور اس سے سب کو عدم استحکام اور عدم تحفظ کا سامنا ہو گا۔
منگل کو میری لینڈ میں نیول اکیڈمی میں آسٹریلیا کے وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے بعد امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ امریکہ مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے اور تنازع کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
قبل ازیں اینٹنی بلنکن نے اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی سے ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔
واضح رہے کہ اُردن میں فلسطینیوں کی بڑی تعداد آباد ہے جب کہ اس کا اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ بھی ہے۔
اردن نے اپریل میں ایران کے اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے میں اس وقت اہم کردار ادا کیا تھا جب اس نے یہ میزائل اور ڈرون تباہ کرنے میں امریکہ کی مدد کی تھی تاکہ اسرائیل میں نقصان کو کم سے کم کرنے میں مدد کی جا سکے۔
ایمن الصدی نے اتوار کو ایران کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے صورتِ حال پر حکام سے تبادلۂ خیال کیا تھا۔
میڈیا سے گفتگو میں جب اینٹنی بلنکن سے سوال کیا گیا کہ کیا اردن دوبارہ ایران کے حملے کی صورت میں امریکی اقدامات کی حمایت کرے گا؟ تو انہوں نے اس براہِ راست جواب دینے کے بجائے کہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی تنازع کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مزید حملوں سے خطرناک نتائج کا اندیشہ بڑھتا جائے گا جس کی کوئی پیش گوئی نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ کسی کے مکمل کنٹرول میں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری ہے کہ خطے میں سب صورتِ حال کا جائزہ لیں، غلط اندازوں کو سمجھیں اور اس طرح کے فیصلے کیے جائیں جس سے خطے میں تناؤ کم ہو۔
واضح رہے کہ ایک دن قبل عراق کے مشرق میں امریکہ کے ایک فوجی اڈے پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں سات امریکی فوجی زخمی ہوئے تھے۔
میری لینڈ میں نیول اکیڈمی میں میڈیا سے گفتگو کے دوران اینٹنی بلنکن کے ہمراہ وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن بھی موجود تھے۔ انہوں نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ کوئی غلطی نہ کرے۔ امریکہ خطے میں اپنے فوجی اہلکاروں پر حملوں کو کسی صورت میں برداشت نہیں کرے گا۔
جو بائیڈن انتظامیہ مشرقِ وسطیٰ میں مزید افواج بھیج چکی ہے۔ امریکہ انتظامیہ غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں مصروف تھی جب اسے اب تنازع پھیلنے سے روکنے کا معاملہ بھی درپیش ہے۔
حماس نے منگل کو اپنے نئے سربراہ کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
تہران میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد اب یحییٰ سنوار حماس کے سیاسی ونگ کی قیادت کریں گے۔
یحییٰ سنوار کو سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں کا مبینہ ماسٹر مائیڈ قرار دیا جاتا ہے۔
حماس کے نئے سربراہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ غزہ میں زیرِ زمین سرنگوں میں چھپے ہوئے ہیں۔
یحییٰ سنوار اسرائیل کی ٹارگٹ لسٹ میں سرِ فہرست ہیں۔
بلنکن کا کہنا تھا اب یہ یحییٰ سنوار پر منحصر ہے کہ وہ جنگ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں کیوں کہ جنگ بندی سے ہی فلسطینوں کی مدد ہو سکے گی۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ تنازع گزشتہ برس سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنوبی اسرائیلی علاقوں پر دہشت گرد حملے کے بعد شروع ہوا تھا۔
حماس کے حملے میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں فوجی اہلکاروں سمیت عام شہری بھی شامل تھے۔
حماس نے حملے میں لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا جن میں 100 سے زائد افراد کو نومبر 2023 میں کچھ دن کی عارضی جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی حکام کے مطابق 100 کے قریب افراد اب بھی حماس کی تحویل میں ہیں جب کہ 40 کے قریب یرغمالوں کی اموات ہو چکی ہیں۔
اسرائیل نے حماس کے حملے کے فوری بعد غزہ کا محاصرہ کر لیا تھا اور بمباری شروع کر دی تھی۔
حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں میں لگ بھگ 39 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہے۔