آصف مرچنٹ: امریکی سیاستدانوں کے قتل کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار پاکستانی جو ’خفیہ ایجنٹوں کو اجرتی قاتل سمجھے‘

نیو یارک (ڈیلی اردو/بی بی سی) امریکہ نے آصف مرچنٹ نامی ایک پاکستانی شہری کو امریکی سرزمین پر سیاستدانوں کے قتل کی منصوبہ بندی‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔ آصف مرچنٹ پر ایران سے قریبی تعلقات کا بھی الزام ہے اور وہ اس وقت نیو یارک میں امریکی حکام کی تحویل میں ہیں جہاں ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

ایک بیان میں امریکی محکمۂ انصاف کا کہنا تھا کہ 46 سالہ آصف رضا مرچنٹ نے مبینہ طور پر امریکی سرزمین پر ایک سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے نیو یارک میں ایک ’ہِٹ مین‘ یعنی کرائے کے قاتل کو بھرتی کرنے کی بھی کوشش کی۔

بروکلن کی وفاقی عدالت میں استغاثہ کی طرف سے جمع کرائی دستاویزات منگل کو منظر عام پر لائی گئیں جن میں امریکی حکام کا دعویٰ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے آصف مرچنٹ کی جانب سے قتل کی اس منصوبہ بندی کو ناکام بنایا اور ایسا کوئی حملہ ہونے سے روکا ہے۔

محکمہ انصاف کی جانب سے پیش کیے جانے والے دستاویزات میں مبینہ اہداف کے نام نہیں دیے گئے تاہم امریکی ذرائع ابلاغ کی خبروں میں ایف بی آئی کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ان اہداف میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام شامل ہے کیونکہ انھوں نے سنہ 2020 کے دوران ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملے کی منظوری دی تھی۔

واضح رہے کہ اس الزام کا 13 جولائی کو ڈونلڈ ٹرمپ پر ہونے والے قاتلانہ حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کے دوران 20 سالہ تھامس میتھیو نے سابق امریکی صدر پر گولی چلائی تھی۔ تاہم جون میں امریکی حکام کے مطابق مبینہ ایرانی منصوبے کی خفیہ اطلاعات ملنے کے بعد ٹرمپ کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی تھی۔

آصف مرچنٹ کون ہیں؟

دستاویزات کے مطابق امریکی حکام نے آصف مرچنٹ کے بارے میں دعوی کیا ہے کہ ان کا پورا نام آصف رضا مرچنٹ ہے اور وہ پاکستانی شہری ہیں۔

دستاویزات میں آصف مرچنٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ وہ 1978 میں کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور پاکستان میں ہی رہائش پذیر ہیں۔

عدالت میں استغاثہ کی جانب سے جو دستاویزات جمع کروائی گئی ہیں ان میں لکھا گیا ہے کہ آصف مرچنٹ نے حکام کو بتایا ہے کہ ان کی ایک اہلیہ اور بچے پاکستان میں ہیں جبکہ ان کی ایک اہلیہ اور بچے ایران میں بھی رہتے ہیں۔

امریکی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ کی سفری دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے ایران، شام اور عراق کئی بار سفر کیا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے آصف مرچنٹ کی گرفتاری اور امریکہ میں مبینہ قاتلانہ حملے کی سازش پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم نے میڈیا رپورٹس دیکھی ہیں اور ہم امریکی حکام سے رابطے میں ہیں، مذید تفصیلات کا انتظار کر رہے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نے امریکی حکام کے ان بیانات کو دیکھا ہے جن کے مطابق اس معاملے کی تفتیش ابھی جاری ہے اور اسی لیے باضابطہ ردعمل جاری کرنے سے قبل ہم اس شخص کے کے ماضی سے متعلق معلومات کی توثیق چاہتے ہیں۔‘

’ہاتھ سے بندوق کا نشان‘

عدالتی دستاویزات کے مطابق اپریل 2024 کے دوران آصف مرچنٹ نے ایران میں کچھ وقت گزارا اور اس کے بعد وہ پاکستان سے امریکہ آئے۔ آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر جس شخص سے رابطہ کیا اس نے نیو یارک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ان کی اطلاع دی تھی۔

عدالتی دستاویزات میں آصف مرچنٹ پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے جون کے اوائل میں اس مخبر سے نیو یارک میں ملاقات کی جس دوران انھوں نے اس شخص کو قتل کے منصوبے کی تفصیلات بتائی تھیں۔ دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر اپنے مقاصد کے بارے میں بات کرتے ہوئے ’ہاتھ سے بندوق کا نشان‘ بھی بنایا۔

مرچنٹ پر الزام ہے کہ اس منصوبے کے تحت ہدف کے گھر سے دستاویزات چُرائی جانی تھیں، مظاہرہ کیا جانا تھا اور ایک سیاستدان یا حکومتی عہدیدار کا قتل کروایا جانا تھا۔

دستاویزات میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ آصف مرچنٹ نے اس شخص سے کہا کہ ان کی ملاقات اجرتی قاتلوں سے کروائی جائے جس کے بعد جون میں ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹوں سے ان کا رابطہ کروایا گیا۔

ان پر الزام ہے کہ انھوں نے جون کے دوران ایک ہِٹ مین یعنی اجرتی قاتل سے ملاقات کی جو دراصل انڈر کور آفیسر تھے اور انھیں قتل کے لیے پانچ ہزار ڈالر کی ایڈوانس ادائیگی کی۔

عدالتی دستاویزات کے مطابق آصف مرچنٹ مبینہ طور پر قتل کے منصوبے کی تکمیل سے قبل 12 جولائی کو امریکہ چھوڑنا چاہتے تھے اور انھوں نے اس سلسلے میں پرواز کی بُکنگ بھی کر رکھی تھی۔

آصف مرچنٹ نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ وہ امریکہ چھوڑنے کے بعد کوڈ ورڈ کی مدد سے رابطے میں رہیں گے مگر اسی روز امریکی حکام نے انھیں گرفتار کیا تاکہ وہ ملک نہ چھوڑ سکیں۔

ایران سے تعلقات کا الزام

اس موقع پر امریکی اٹارنی جنرل میرک بی گارلینڈ کا کہنا تھا کہ ’ایران کئی برسوں سے ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل کے بعد انتقام کی کوششیں کر رہا ہے جسے محکمۂ انصاف کی جانب سے جارحانہ انداز میں ناکام بنایا جا رہا ہے۔ ’محکمہ انصاف ہر ممکن وسائل استعمال کرے گا تاکہ ایران کے مہلک منصوبوں کو ناکام بنایا جا سکے اور امریکی شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔‘

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے دعویٰ کیا ہے کہ گرفتار کیے گئے پاکستانی شہری آصف مرچنٹ کے ایران سے قریبی تعلقات ہیں اور یہ منصوبہ ایران کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ’کسی بھی امریکی شہری یا سرکاری اہلکار کو قتل کرنے کی کوشش ہماری قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ایف بی آئی تمام وسائل کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے گی۔‘

امریکی اٹارنی بریون پیس نے اس حوالے سے ایف بی آئی کے علاوہ نیو یارک کی پولیس، اٹارنی کے دفتر، امریکی کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کا شکریہ ادا کیا ہے۔

جبکہ نیو یارک میں ایف بی آئی کے قائم مقام اسسٹنٹ ڈائریکٹر کرسٹی کرٹس نے کہا کہ ’خوش قسمتی سے مرچنٹ نے جن قاتلوں کو بھرتی کرنے کی کوشش کی، وہ خفیہ ایف بی آئی ایجنٹس تھے۔

’اس کیس نے نیو یارک، ہیوسٹن، اور ڈلاس میں ہمارے ایجنٹس، تجزیہ کاروں اور وکلا کی محنت اور عزم کو اجاگر کیا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں