واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیلنے کے خدشات بڑھتے جار ہے ہیں اور ایسے میں امریکہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات آخری مرحلے میں ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے تہران میں قتل کے بعد خطے میں ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروپوں کی طرف سے اسرائیل پر ممکنہ حملے کے خدشات سے کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
امریکی حکام نے صدر جو بائیڈن کے جنگ بندی کے لیے مذاکرات کے ثالث قطر کے رہنماوں کو دیے گیے پیغام کی بازگشت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات اب آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں اور جتنا جلد ممکن ہو سکے انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کے روز کہا “ہم واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم معاہدے پر اتفاق کے آخری مرحلے میں ہیں۔”
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کا یہ امید افزا خیال خطے میں کشیدگی کے برعکس ہے۔ ایران نے پچھلے ہفتے اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد جوابی کارروائی کا عزم کیا تھا۔
ایران سمیت کئی ممالک سمجھتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کا ذمے دار اسرائیل ہے۔ تاہم نیتن یاہو حکومت نے ہنیہ کے قتل کی براہِ راست ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔
تھنک ٹینک کارنیگی اینڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے منسلک تجزیہ کار اور مشرقِ وسطی کے سابق امریکی مذاکرت کار ہارون ڈیوڈ ملر کہتے ہیں کہ ہم خطے میں ایک بڑی جنگ کے قریب ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ آج کل یا پرسوں کارروائی کرنے والی ہے جو کہ اسرائیلیوں کو تکلیف دینے کی ایک سنجیدہ کوشش ہوگی۔
امریکی حکام کے مطابق نسبتاً پرسکون مہینوں کے بعد حالیہ ہفتوں میں ایران کے دوسرے حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپوں نے عراق اور شام میں امریکی عسکری ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔
اسرائیل نے گزشتہ ہفتے بیروت میں ایک حملے میں حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کو ہلاک کیا تھا۔ اس حملے کے جواب میں لبنان کے جنوب سے حزب اللہ کی طرف سے جوابی کارروائی کا سامنا ہے۔
معاہدہ ہو یا نہ ہو
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی تجزیہ کار میراو زائین شاین کہتی ہیں کہ اس بات سے قطع نظر کہ خطہ جنگ کے دہانے پر جا پہنچے اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کو یقین ہے کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل حماس پر دباؤ کا باعث بنے گا۔
نیتن یاہو سمجھتے ہیں کہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کے بعد حماس موافق شرائط پر جنگ بندی کے معاہدے پر رازی ہو جائے گی۔
بائیڈن نے عوامی سطح پر اور نجی طور پر نیتن یاہو کی بات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی ہلاکت اور اسرائیل کے مذاکراتی میز پر نئے مطالبات لانا معاہدے کے حصول کے لیے سازگار نہیں ہیں۔
گزشتہ ہفتے امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے بائیڈن کے پیغام کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام فریقین کو بڑھاوے کے اقدامات بند کرنے چاہیں اور معاہدہ طے کرنے کی وجوہات تلاش کرنی چاہیں، نہ کہ ایسی وجوہات جو معاہدے کی تاخیر کا باعث بنے یا اس سے انکار کریں۔
زائین شاین نے وی او اے کو بتایا کہ امریکی دباو کے باوجود نیتن یاہو کی تمام تر اسٹیبلشمنٹ کہتی ہے کہ وہ زیرI غور معاہدہ نہیں چاہتے۔
امریکی حکام نے اس سلسلے میں اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ سفارت کاری کے علاوہ ایران اور اسرائیل سے براہ راست بات بھی کی ہے۔
بائیڈن نے اردن کے شاہ عبداللہ سے پیر کو کشیدگی کم کرنے کی کوششوں پر بات کی تھی۔ انہوں نے خطے میں اضافی امریکی جنگی ساز و سامان بھی بھیجا ہے تاکہ ایرانی جواب کی شدت کو کم رکھا جاسکے۔
حماس کے نئے رہنما
حماس نے یحیِ سنوار کو اسماعیل ہنیہ کا جانشین مقرر کیا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عسکریت پسند گروپ اپنے مؤقف کو سخت کرے گا۔
تھنک ٹینک ‘دی واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی’ سے منسلک سینیئر فیلو ڈیورا مارگولن کہتی ہیں اسرائیل پر حملے کے مرکزی منصوبہ ساز کی حماس کے رہنما کے طور پر تقرری اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ حماس دوسروں کے مقابلے میں ایران کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یحیٰ سنوار کی تقرری حماس کے اپنے اصل مشن سے مزید گہری وابستگی کی غماز بھی ہے۔ اس کا اصل مقصد اسرائیل کے خلاف ہر ممکن پر تشدد جدوجہد کرنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے اس بات کو مسترد کیا ہے کہ یحیٰ سنواری کی تقرری جنگ بندی کے مذاکرات کو مزید پیچیدہ بنادے گی۔
کربی نے وی او اے کو رپورٹرز کے ساتھ بریفنگ کے دوران بتایا کہ سنواری نو ماہ طویل مذاکرات میں پہلے سے ہی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ہونے کے ناطے انہیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کو کیسے لیا جائے۔
حقیقت یا خوش فہمی
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سنیئر فیلو برائن کتولس کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ کئی مہینوں سے کہتی آرہی ہے کہ جنگ بندی کے مذاکرات آخری مرحلے میں ہیں لیکن باہر سے مشاہدہ کرنے والے لوگوں کے لیے یہ جانچنا مشکل ہے کہ یہ تجزیہ حقیقت پسندانہ ہے یا خوش فہمی پر مبنی ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگوں کو یقین دلانا کہ جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے خارجہ پالیسی کے ضمن میں ذہنی طور پر رویے پر اثرانداز ہونے کا طریقہ ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول، یہ اسٹرٹیجک پیغام رسانی بھی ہو سکتی ہے تاکہ ایران جیسے فریق کو تحمل سے کام لینے کی ترغیب دی جائے۔
جان پاپکنز یونیورسٹی کے بلوم فیلڈ نے وی او اے کو بتایا کہ جیسے امریکی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ ہم اختتامی کھیل میں ہیں، اگر آپ گیند کو پھینک دیتے ہیں تو ہم آپ کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔
نیتن یاہو کو مقامی اور خطے سے جنگ بندی پر آمادگی کے دباؤ کا سامنا ہے جب کہ اسرائیلی عوام یرغمالوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے۔
اسرائیلی قانون ساز اسمبلی تین مہینے کے لیے چھٹی پر ہے۔ ایسے میں نیتن یاہو اپنی حکمتِ عملی کے لیے سیاسی اسپیس بنانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی مخلوط حکومت کو بھی بچانا چاہتے ہیں اور کامیابی بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
بلوم فیلڈ کہتے ہیں کہ آئندہ دنوں میں اس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، جنگ بندی یا پھر پورے خطے میں ایک خوف ناک آگ۔