نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈیا کی حکومت نے مساجد، مدارس اور درگاہوں جیسے مسلمانوں کے مذہبی اور خیراتی اثاثوں کو کنٹرول کرنے والے وقف بورڈ کے قانون میں ترمیم کا اعلان کیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت نے 1995 کے وقف قانون میں ترمیم کا بل اسمبلی میں متعارف کروایا ہے، جس کی مسلمان اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں مخالفت کر رہے ہیں۔
حکومت کی ان ترامیم کو وقف کے املاک کو ریگولیٹ کرنے کی سمت میں ایک بڑے فیصلے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
وقف بورڈ کے قوانین میں کی گئی ترامیم حکومت کو اجازت دیتی ہیں کہ وہ ازخود یہ تعین کرے کہ کوئی جائیداد وقف کی ملکیت کیسے بنے گی یا ریاستوں میں قائم وقف بورڈ کی تشکیل کیسے ہو گی۔
وقف املاک کا معاملہ حالیہ برسوں میں بی جے پی اور دائیں بازو کے ہندو رہنماؤں کے لیے اہم موضوع رہا ہے۔
مجوزہ ترامیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی جے پی رہنما پریم شُکلا کا کہنا تھا کہ ’وقف بورڈ کے پاس 50 ممالک کے رقبے سے زیادہ اراضی ہے، اس لیے اس لینڈ جہاد کو روکنے کے لیے حکومت ایک بل لا رہی ہے جو وقف بورڈ کو شفاف بنائے گا۔‘
تاہم اپوزیشن جماعتوں نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی ہے۔
پرانا وقف قانون کیا تھا؟
وقف ایکٹ پہلی بار 1954 میں پارلیمنٹ نے پاس کیا تھا۔ بعد میں اسے منسوخ کر 1995 میں ایک نیا وقف ایکٹ منظور کیا گیا تھا جس کے تحت وقف بورڈ کو مزید اختیارات دیے گئے تھے۔
سنہ 2013 میں اس ایکٹ میں مزید ترمیم کی گئی، جس کے تحت وقف بورڈ کو لوگوں کی طرف سے وقف کی گئی جائیداد کو ’وقف جائیداد‘ کے طور پر نامزد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔
یہ اکثر کہا جاتا تھا کہ ایک بار وقف کی گی جائیداد ہمیشہ کے لیے وقف بورڈ کی جائیداد ہوتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں وقف بورڈ کے پاس آٹھ لاکھ 72 ہزار ایکڑ سے زیادہ زمین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انڈیا میں ریلوے اور وزارتِ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف بورڈ کی ملکیت میں ہے۔
انڈیا کی مختلف ریاستوں میں 32 وقف بورڈ ہیں، جن میں شیعہ اور سنّیوں کے خصوصی وقف بورڈ بھی شامل ہیں۔
لیکن اتنے وسیع پیمانے پر جائیداد ہونے کے باوجود بھی مبینہ بدعنوانی کے وجہ سے وقف بورڈ کو محض 200 کروڑ روپے کی آمدنی ہی ہوتی ہے، جس پر مسلم تنظیموں نے پہلے بھی تنقید کی تھی اور شفافیت کا مطالبہ کیا تھا۔
حکومت وقف قانون میں کیا تبدیلی لانا چاہتی ہے؟
وقف بورڈ کے پرانے قانون میں تقریباً تین درجن تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں جنھیں ناقدین نے مسلمانوں کے حقوق چھیننے کے مترادف قرار دیا ہے۔
تجویز کردہ تبدیلی ضلع کلیکٹر کو اختیار دیتی ہے کہ وہ فیصلہ کر سکے کہ کونسی جائیداد وقف کی ہے اور کون سی سرکاری زمین ہے۔
ان ترامیم کا مقصد ظاہری طور پر مرکزی وقف کونسل اور ریاستی بورڈز میں خواتین کی تعداد کو بڑھانا بھی ہے۔
یہ بِل مرکزی حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ وقف بورڈ میں ایک غیر مسلم چیف ایگزیکٹو آفیسر اور کم از کم دو غیر مسلم ممبران کو ریاستی حکومت کے ذریعہ تعینات سکے۔
ترامیم کے ذریعے ’استعمال کے ذریعہ وقف‘ (وقف بائی یوز) کے طریقے کو بھی مکمل طور پر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی جائیداد وقف کے استعمال میں ہے تو کاغذات مشتبہ ہونے کی صورت میں بھی وہ زمین وقف کی ملکیت میں ہی رہے گی۔
واضح رہے کہ کئی معروف اور مالدار مسلمان شخصیات اکثر اپنی جائیداد کے کچھ حصے کو وقف کیا کرتے تھے، لیکن قانونی طور پر وقف کے پاس بہت ساری زمینوں کے کاغذات نہیں اور بہت سی زمینوں کے دستاویزات گُم ہو چکے ہیں۔
ان میں سے کئی جائیداد یا زمینیں اس زمانے میں وقف کی گئی تھیں جب جائیداد کو زبانی طور پر وقف کرنا عام تھا اور دستاویزات کا استعمال عام نہیں تھا۔
ایسے میں مثال کے طور پر ایک مسجد کو وقف نامے کی عدم موجودگی میں بھی وقف کی جائیداد تصور کیا جاتا تھا۔
نئی مجوزہ ترامیم کے مطابق اگر کسی جائیداد کا وقف نامہ موجود نہیں تو وقف کی اس جائیداد کی ملکیت مشتبہ تصور کی جائے گی۔
مجوزہ تبدیلیوں پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟
حکومت نے ذرائع نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ اس نے ترامیم کو متعارف کروانے سے پہلے مسلمانوں اور ان کی تنظیموں سے مشورہ کیا لیکن کئی مسلمانوں اور ان سے وابستہ تنظیموں نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کی ہے۔
مسلمان تنظیموں کے ایک گروپ ’آل انڈیا مسلم مجلسِ مشاورت‘ نے کہا ہے کہ وقف ایکٹ میں مجوزہ ترامیم مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
اس نے کہا ہے کہ ’یہ انڈیا کے سیکولر اور جمہوری اصولوں کے سراسر خلاف ہے اور 22 کروڑ سے زیادہ اقلیتی شہریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مترادف ہے۔‘
اس نے مزید کہا کہ ’وقف جائیدادیں ہمارے آباؤ اجداد نے اقلیتوں کی سماجی و اقتصادی بہبود کے لیے عطیہ کی ہیں۔ ان ترامیم کا مقصد کچھ مفاد پرست گروہوں اور افراد کو ان جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی اجازت دینا ہے۔‘
مسلمانوں کی ایک اور نمائندہ تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ہے کہ وہ ’وقف ایکٹ 2013 میں ایسی کسی بھی تبدیلی کو قبول نہیں کریں گے جس سے وقف املاک کی حیثیت اور نوعیت میں تبدیلی آئے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’وقف بورڈ کے حقوق میں کسی قسم کی کمی یا حد بندی کو بھی ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
اس حوالے سے آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے کہا کہ حکومت وقف بورڈ کی خود مختاری کو چھیننا چاہتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں کہہ سکتا ہوں کہ اس مجوزہ ترمیم کے بارے میں میڈیا میں جو کچھ بھی لکھا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت وقف بورڈ کی خود مختاری چھیننا چاہتی ہے اور مداخلت کرنا چاہتی ہے، یہ مذہب کی آزادی کے خلاف ہے۔‘
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میڈیا رپورٹس کے مطابق (اگر وقف کی جائیداد سے متعلق) تنازع ہے تو وہ (حکومت) سروے کرائیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مقصد ایک ہی ہے کہ وقف کی جائیدادوں کو مسلمانوں سے چھین لیا جائے۔ شروع سے ہی (ہندو دائیں بازو کی تنظیم) آر ایس ایس اس کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
انڈین یونین مسلم لیگ کے رُکنِ پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے کہا کہ یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ ’وہ (وقف) بورڈ کے تمام حقوق چھین رہے ہیں اور اسے حکومت کے حوالے کر رہے ہیں۔‘
اپوزیشن پارٹی کانگریس نے بھی اس بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کیا۔
اس ہفتے کی ابتدا میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادیو نے کہا تھا کہ ’بی جے پی کے پاس سوائے ہندو، مسلم کے اور کچھ کرنے کو نہیں اور یہ کہ وہ مسلمان بھائیوں کے حقوق کیسے چھینے۔‘
مجوزہ تبدیلیوں سے پہلے بھی وقف بورڈ پر تنقید
وقف کی کارکردگی دوسری وجوہات کی بنا پر پہلے بھی تنقید کے نشانے پر رہی ہے کیونکہ اس کے پاس موجود وسائل کی مقدار کے مقابلے میں اس کی آمدنی کافی کم رہی ہے، اس کے ممبران پر بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے ہیں اور یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ذریعے اپنی جائیداد پر تجاوزات کو ختم کرنے میں ناکام رہا۔
اس کی کئی ساری جائیدادیں تنازع کا شکار رہیں کیونکہ مبینہ طور پر اس کی زمینوں پر غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں، مثلاً دہلی میں قبرستان کی زمین پر ایک پارک کا بڑا حصہ موجود ہے اور ممبئی میں یتیم خانے کی زمین پر امبانی کا گھر۔
افروز عالم ساحل، جو ایک تحقیقاتی صحافی ہیں اور جنھوں نے وقف کے کام کی چھان بین کی، کہتے ہیں کہ ہر سال وقف املاک کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
وہ دہلی کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دہلی وقف بورڈ کے ساتھ ان کی آر ٹی آئی درخواستوں (حکومت سے مفاد عامہ کی معلومات حاصل کرنے کا قانون) سے پتہ چلا کہ دہلی میں 500 سے زیادہ قبرستان ہیں لیکن جب کچھ مہینوں بعد انھوں نے دوسری آر ٹی آئی درخواست بھیجی تو معلوم ہوا کہ محض تقریباً 400 قبرستان ہی وقف کے ریکارڈ میں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ بورڈ کے عہدیداروں نے انھیں بتایا کہ شہر میں صرف تقریباً 75 ہی قبرستان ان کی ملکیت میں رہ گئے ہیں۔
ساحل کا کہنا ہے کہ سنہ 2013 میں ترمیم شدہ وقف بِل کا مقصد خامیوں کو دور کرنا تھا لیکن وقف اراضی کا غلط استعمال پھر بھی جاری رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ کی ملکیتی جائیدادوں کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیاں ہیں۔
سرکاری ڈیٹا بیس کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’یہ جب اپ ڈیٹ ہو رہا تھا تب اس کی فہرست میں وقف کی جائیدادوں کی تعداد بڑھتی ہوئی نظر آرہی تھی لیکن بہت سے لوگوں نے اسے پروپیگنڈا میں تبدیل کر دیا کہ وقف املاک کی تعداد کیسے بڑھ سکتی ہے؟ وہ اس لیے کہ سروے جاری تھا اور اس میں نئے سروے جڑ رہے تھے۔‘
ساحل کہتے ہیں کہ ’وقف کی جائیداد پر غیر قانونی قبضے کو لے کر حکومت کبھی بھی سنجیدہ نہیں تھی اور آج بھی نہیں۔ مقصد پہلے بھی اسی آزاد کروانے کا نہیں تھا اور ابھی بھی ایسا نہیں۔‘