پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی ضلع خیبر کے دور افتادہ علاقے وادیٔ تیراہ میں سیکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹس پر حملے میں کم از کم سات اہلکار ہلاک اور 12 زخمی ہو گئے ہیں۔
زخمیوں میں کیٹین، حوالدار وحید، نائیک اشفاق، لانس نائیک زوار حسین، لانس نائیک سید رسول، لانس نائیک احسان، لانس نائیک اجمل رضا، سہیل، ناصر حسین، عمر جان، عارف، اور سمیع شامل ہیں۔
ان حملوں میں آٹھ اہلکاروں کے لاپتا ہونے جب کہ پوسٹ پر عسکریت پسندوں کے قبضے کی اطلاعات ہیں۔
مقامی سوال انتظامی عہدے داروں کے مطابق چیک پوسٹ کو عسکریت پسندوں کے قبضے سے چھڑوانے کے لیے سیکیورٹی فورسز کے مزید دستے روانہ کر دیے گئے ہیں۔
فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ابھی تک وادیٔ تیراہ میں مبینہ طور پر سرحد پار افغانستان سے عسکریت پسندوں کے حملوں کے بارے میں کوئی بیان جاری نہیں ہوا ہے۔
مگر ضلع خیبر کے سول پولیس اور دیگر اداروں کے درمیان خط و کتابت میں اس واقعے کی تصدیق کی گئی ہے۔
واضح رہے پاکستان کی فوج اور سیکیورٹی ادارے مبینہ طور پر افغانستان میں موجود کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان میں دہشت گردی کا ذمے دار قرار دیتی ہے۔
سیکیورٹی اداروں کا یہ مؤقف رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو سرحد پار سے پاکستان آ کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ لہذٰا طالبان حکومت کو ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
تاہم افغانستان میں طالبان حکومت پاکستان کے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے دہشت گردی کو پاکستان کو اندرونی معاملہ قرار دیتی ہے۔
مقامی حکام کے مطابق جمعرات کی رات تیراہ کی مختلف چیک پوسٹوں پر تھانہ تیراہ 27 بریگیڈ کے انڈر کمانڈ 231 وینگ آدم زنگئی پوسٹ اور تھانہ تیراہ پر دہشت گردوں نے بڑے اور چھوٹے ہتھیاروں سے حملے کیے۔
ان حملوں کے نتیجے سیکیورٹی فورسز کے چھ اہلکار موقع پر جان کی بازی ہار گئے جب کہ 12 زخمی ہوئے۔
حکام نے ان حملوں کے بعد آٹھ اہل کاروں کے لاپتا ہونے کی بھی اطلاعات دی ہیں۔
مقامی سول انتظامی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں ایک افسر بھی شامل ہے۔
حکام نے بعد میں ایک اور اہل کار کی ہلاکت کی اطلاع دی جس کے بعد عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کی تعداد سات ہو گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملوں میں پولیس اہلکاروں کو کسی قسم کا مالی اور جانی نقصان نہیں ہوا۔
وادی تیراہ میں سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں پر مبینہ طور پر سرحد پار افغانستان میں روپوش عسکریت پسندوں نے یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا ہے جب اسی علاقے کے کوکی خیل قبیلے کی جانب سے سیکیورٹی اور انتظامی مسائل کے حوالے سے جمرود میں دھرنا دیا جا رہا ہے۔
خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق رواں برس سات ماہ کے دوران دہشت گرد حملوں میں 563 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی پولیس (سی ٹی ڈی) کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں 76 پولیس اہلکار جب کہ 113 زخمی ہوئے ہیں۔
گزشتہ سال پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2013 کے بعد سب سے زیادہ خود کش حملے 2023 میں ریکارڈ کیے گئے۔
رپورٹ کے مطابق 2022 کے مقابلے میں 2023 میں خود کش حملوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ ہوا۔ ان حملوں کے نتیجے میں اموات کی شرح میں 226 فی صد اضافہ ہوا۔
یہ واقعات ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب جون میں حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف ‘عزم استحکام آپریشن’ کے نام سے فوجی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس آپریشن کی مقامی سطح پر مخالفت کی گئی تھی جب کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں اس کے خلاف جلسے اور ریلیاں بھی ہوئی ہیں۔